Husband wife: میاں بیوی کو بچوں کے سامنے لڑائی کیوں نہیں کرنی چاہیے؟

میاں بیوی کے درمیان تُوتکار یا چھوٹی موٹی لڑائی کوئی انہونی بات نہیں اور کچھ ایسی بُری بات بھی نہیں جبکہ کچھ لوگ تو اس کو محبت کے بڑھنے کا سبب بھی قرار دے ڈالتے ہیں۔ ایسا ہو نہ ہو مگر یہ بچوں میں نفسیاتی مسائل بڑھنے کا سبب ضرور بنتی ہے۔
سیدتی میگزین نے ماہرین کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ جن کے بچے حساس ہیں اور کسی بھی بات پر ناراض ہو جاتے ہیں تو ان پر بطور والدین ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے اور شریک حیات کے ساتھ تعلقات کتنے ہی تکلیف دہ کیوں نہ ہوں ان کا کھلے عام اظہار بچوں کے سامنے کرنے سے گریز کریں۔

میاں بیوی کے تعلقات خواہ طلاق کی نہج تک پہنچ گئے ہوں پھر بھی ان کو بچوں کے سامنے ایک دوسرے پر الزام تراشی قطعاً نہیں کرنی چاہیے جبکہ بچوں کی موجودگی کسی سے بھی ایک دوسرے کی غیبت تو اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ اس سے بچے ذہنی طور پر دباؤ کا شکار ہوتے ہیں اور وہ غصے اور بدتمیزی کی طرف جاتے ہیں۔

اسی طرح اکثر میاں بیوی کی ناراضی کے دوران یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ والدین بچوں کے ساتھ ہی ایک دوسرے کے خلاف باتیں کرتے ہیں جس سے بچوں کے ذہن میں ان کے خلاف غصہ جنم لیتا ہے۔ اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ کے بچے جھگڑالو نہ ہوں تو متذکرہ باتوں سے اجتناب برتیں۔
پیغامات کے لیے بچوں کو استعمال نہ کریں
ایسا عموماً ان جوڑوں میں دیکھا گیا ہے کہ جن کے درمیان سخت رنجش ہو یا پھر علیحدگی ہو چکی ہو۔ اگر آپ اپنے شوہر یا بیوی سے کچھ کہنا چاہتے ہیں تو خود کہیں۔ ایسا نہ ہو سکے تو فون پر یا تحریری پیغام کے ذریعے آگاہ کریں۔
لڑائی سے پرہیز کریں


لڑائی عموماً اس وقت ہوتی ہے جب دونوں جانب برہمی شدید ہو اس لیے اس سے بچنے کا طریقہ یہی ہے کہ دونوں میں سے کوئی ایک پرسکون رہے اور بات کو نہ بڑھنے دے خصوصاً بچوں کی موجودگی میں۔ جب ایسا محسوس ہو کہ پارٹنر غصے میں ہے، پریشان ہے یا پھر کسی اور وجہ سے اس کا موڈ آف ہے تو نرمی کا مظاہرہ کریں اس کے جواب میں اگر دوسرا بھی وہی طرزعمل اختیار کرے گا تو لامحالہ لڑائی ہو گی جس کے نفسیاتی اثرات بچوں پر ہی پڑیں گے۔
اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ میاں بیوی کے درمیان لڑائی کے بعد بچوں کے ساتھ بات چیت میں کمی آ جاتی ہے جس کو بچے شدت کے ساتھ محسوس کرتے ہیں۔ اس لیے جیون ساتھیوں کے درمیان تعلقات کتنے ہی خراب کیوں ہوں اس کے قصوروار بچے نہیں ہیں اس لیے ان پر غصہ مت نکالیں۔ ان کے ساتھ بات کرتے رہیں اور ان کی سنیں بھی۔ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ آپ کا ذہن بھی بٹ جائے گا اور برہمی میں کمی آئے گی۔


طلاق کی صورت میں
اگر میاں بیوی میں علیحدگی ہو چکی ہے تو یہ نہیں ہو سکتا ہے کہ اس کا اثر بچوں پر نہ پڑے اگر وہ اس پر بات کرنا چاہتے ہیں تو ان کے خیالات کو قبول کریں اگر وہ آپ کو بریک اپ کا ذمہ دار ٹھہراتا یا ٹھہراتی ہے تو اس کو نرمی سے سمجھائیں اور بتائیں کہ آپ اس کے جذبات کو سمجھتے ہیں اگر وہ جھنجھلاہٹ کا مظاہرہ بھی کرے تو اس کے جواب میں صبر سے کام لیں۔
اگر جوڑے میں طلاق ہو چکی ہے یا پھر وہ اکٹھا بھی ہے تاہم دونوں کے تعلقات خوشگوار نہیں اور بچے کا رویہ شدید خراب ہو رہا ہے یا پھر وہ گم صم رہنے لگا ہے اور درست طور پر کھانا بھی نہیں کھا رہا تو یہ خطرے والی بات ہے یہی وہ وقت ہے جب اس کو معالج کے پاس لے جانا چاہیے۔
ماہرین کے مطابق اکثر اوقات بچوں کے لیے خاندان کے افراد ہٹ کر باہر کے کسی شخص سے اپنے جذبات اور دکھ کا اظہار کرنا آسان ہوتا ہے اور اس سے اسے پرسکون ہونے میں مدد ملتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے