حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ:

نام : عمر
کنیت : ابو عبداللہ
لقب : فاروقؓ
ولادت : 40 قبل ھجری
والد : خطاب بن نفیل
والدہ : ختمہ بنت ہشام
پیشہ : جہاد و سیاست
وفات : 23 ھجری
مرویات : 537

۔✿❀࿐≼❍••══┅┄

قربان جاؤں اس حضرت عمر فاروقؓ پے جب خلیفہ وقت بنے تو دریا نیل کی طرف کچھ لوگ ایک لڑکی کو دلہن بنا کر لے کر جارہے تھے عمر فاروق نے پوچھا اس بچی کو کہاں لے کر جارہے ہو ؟

لوگوں نے کہا امیر المؤمنین ہر سال اس دریا میں کسی نا کسی کنواری لڑکی کو دلہن بنا کر دریا کے بیچ میں کھڑا کرتے ہیں تب یہ دریا بہتا ہے ورنہ نہیں بہتا ۔
حضرت عمر فاروقؓ نے کہا بچی کو واپس لے جاؤ بچی کا کیا قصور ہے ؟
ایک خط لکھ کر دیتا ہوں وہ دریا تک پہنچاؤ ۔
حضرت عمر فاروقؓ نے لکھا اے دریا نیل میں عمر محمّد مصطفیٰ ﷺ کا غلام تجھے حکم دیتا ہوں اگر تو اللّٰہ کی مرضی سے بہتا ہے تو ٹھیک ہے اگر تو اپنی مرضی سے بہتا ہے تو تمہارے پانی کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں اللّٰہ خود ہی ہمیں پانی پلائے گا ۔

حضرت عمر فاروقؓ کا خط جیسے دریا کو ملا دریا نے بنا کسی دیر کے بہنا شروع کیا اتنا زور سے بہنے لگا کے پانی کناروں تک آ پہنچا ۔

یہی حضرت عمر فاروقؓ ایک دفع مسجد نبوی میں ممبر نبی ﷺ پے جمعہ کا خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کے اچانک زمین کے اندر زلزلہ آگیا زمین ہلنے لگی حضرت عمر فاروقؓ نے لوگوں کو یہ نہیں کہا کے مسجد سے باہر نکلو مسجد کہیں گر نا جاۓ نہیں نہیں حضرت عمر فاروقؓ نے خطبہ والا عصا اٹھایا اس عصا کو زمین پے مار کر کہا خبردار ! اے زمین اگر عمر نے تجھ پے انصاف قائم نہیں کیا تو تجھے ہلنے کا حق ہے اور اگر عمر نے تجھ پے انصاف قائم کیا ہے تو تجھ کو ہلنے کا کوئی حق نہیں خدا کی قسم عمر فاروق کی لاٹھی زمین کو لگی زلزلہ تو بند ہوا مگر آج تک مدینہ میں زلزلہ نہیں آیا ۔

┄┅═══❁ ❁═══┅┄

ایک دفع روم سے سفیر آگیا مدینہ میں پہنچ کر پتا کیا کے مسلمانوں کا بادشاه عمر فاروقؓ کہاں ہے ؟
لوگوں نے کہا وہ تو بیت المال کے اونٹ چرانے جنگل میں گئے ہوۓ ہیں روم کا سفیر حیران ہوا کے وقت کا وزیر اعظم ایسا بھی ہوتا ہے کیا ؟

حضرت عمر فاروقؓ سے کچھ ملکی معاملات پے بات کرنی تھی سفیر ڈھونڈتے ہوۓ ایک درخت کے پاس پہنچا دیکھا کے عمر فاروق درخت کے نیچے لیٹ کر آرام فرما رہے تھے مگر جنگل کا ایک شیر ہے جو حضرت عمر فاروقؓ کا پہرا دے رہا ہے روم کے سفیر پر جب شیر کی نظر پڑی تو شیر کے دھاڑنے کی آواز سنائی دی روم کا سفیر چلانے لگا اتنے میں حضرت عمر فاروقؓ کی آنکھ کھل گئی پوچھا کیا بات ہے کیوں چلا رہے ہو ؟
سفیر نے کہا واہ عمر تیری حکمرانی کے جنگل کے شیر بھی تیری ڈیوٹی دے رہے ہیں
اس پر حضرت عمر فاروقؓ نے ایسا جملہ کہا کے سونے کی تار سے لکھا جاۓ پھر بھی کم ہے فرمایا
جو بھی ہمارے نبی محمّد مصطفیٰ ﷺ کی غلامی اختیار کرتا ہے اسکی قدر جنگل کے جانور بھی پہنچانتے ہیں روم کے سفیر نے بات چیت کی اور چلا گیا

دوسرے دن صبح ہوئی حضرت عمر فاروقؓ پانی کے مشکیزے بھر بھر کے غریبوں کے دروازے پے پانی پہنچا رہے تھے تو نوکروں نے کہا کے امیر المؤمنین خزانے سے ہم بھی تنخواہ لیتے ہیں آپ حکم کریں ہم پانی بھر لیتے ہیں اس پے حضرت عمر فاروقؓ نے کہا برابر آپ ٹھیک کہہ رہے ہو
مگر کل روم کا سفیر آیا اس نے میری تھوڑی تعریف کردی اس سے میرے نفس میں کچھ زیادتی آگئی اب غریبوں کا پانی بھر کے اپنے نفس کو سزا دے رہا ہوں کے عمر تُو تو بادشاه نہیں تُو تو غریبوں کا غلام ہے ۔

┄┅═══❁ ❁═══┅┄

**حضرت عمر فاروقؓ کو ایک شخص کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ ماں کو گالیاں دیتا ھے۔
آپ نے اس شخص کو بلوایا اور حکم دیا کہ پانی سے بھری ھو مشک لائی جائے ،،

پھر وہ مشک اس کے پیٹ پر خوب کس کر بندھوا دی
اور اس کو کہا کہ اسے اسی مشک کے ساتھ چلنا پھرنا بھی ھے اور کھانا پینا بھی ھے اور سونا جاگنا بھی ھے۔
ایک دن گزرا تو وہ بندہ بلبلاتا ھوا حاضر ھوا کہ اس کو معاف کر دیا جائے وہ آئندہ ایسی حرکت نہیں کرے گا۔
آپؓ نے پانی آدھا کر دیا
مگر مشک بدستور اس کے پیٹ پر بندھی رھنے دی۔

مزید ایک دن کے بعد وہ بندہ ماں کو بھی سفارشی بنا کر ساتھ لے آیا کہ اس کو معاف کر دیا جائے اور اس مشک کو ھٹا دیا جائے وہ دو دن سے نہ تو سو سکا ھے اور نہ ھی ٹھیک سے کھا سکا ھے۔
آپ نے اس کی ماں کی طرف
اشارہ کر کے فرمایا
کہ اس نے تجھے پیٹ کے باھر نہیں بلکہ پیٹ کے اندر اتنے ھی وزن کے ساتھ 9 ماہ اٹھا کر رکھا ھے۔

نہ وہ ٹھیک سے سو سکتی تھی اور نہ ٹھیک سے کھا سکتی تھی ،پھر تو اسے موت کی سی اذیت دے کر پیدا ھوا اور 2 سال اس کا دودھ پیتا رھا ،

اور جب اپنے پاؤں پر کھڑا ھوا تو اس کا شکر ادا کرنے کی بجائے اس کے لئے تیرے منہ سے گالیاں نکلتی ھیں ،، اگر آئندہ یہ شکایت موصول ھوئی تو تجھے نشانِ عبرت بنا دونگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے