دیارِ ادیب مالیگاوں سیف نیوز ادبی پوسٹ


مہنگائی، مہنگی تعلیم، مہنگا علاج، جائیں تو جائیں کہاں…(قسط 1)

✍🏻 حافظ عزیز الرحمان بجرنگ واڑی
9370465545


کہا جاتا ہے کہ انسان کی بنیادی ضرورتیں تین ہیں روٹی، کپڑا اور مکان، لیکن بدلتے زمانے میں بیوی، بچے، اور دکان کے ساتھ علم اور علاج کا بھی اضافہ ہوا. اس وقت پوری دنیا میں بڑی تیزی کے ساتھ افراط زر بڑھ رہا ہے.

مہنگائی کی مار سے ہر کوئی پریشان ہے، بات اگر ملکی سطح کی کیجائے تو ملک ہندوستان میں مہنگی روٹی، مہنگا کپڑا اور مہنگے مکان سے عوام عاجز تھے ہی لیکن اب ادویات اور پیپر کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے بھی عام عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے. ایک جانب باشندگان اخراجات کو پورا کرنے کے لیے پریشان ہیں، آمدنی و روزگار میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے تو دوسری جانب اڈانی جی کی دولت بڑی تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے. اس وقت اڈانی 153 بلین ڈالر کی دولت کے ساتھ دنیا کے امیروں کی فہرست میں دوسرے پائیدان پر موجود ہیں. تعلیم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آدھی روٹی کھاؤ لیکن اپنے بچوں کو تعلیم ضرور دو، قول مشہور ہے کہ اگر آپ اپنے بچے کو روٹی نہیں دو گے تو وہ تھوڑی دیر روکر چپ ہوجائے گا لیکن تعلیم نہیں دو گے تو وہ تا عمر روتا رہے گا. اب ہر کسی کی خواہش یہ جاگ اٹھی کہ میرا بچہ معیاری تعلیم حاصل کرے، لیکن حالات یہ پیدا کردیئے گئے کہ معیاری تعلیم مطلب مہنگی تعلیم.

ہم شہری سطح کی بات کرتے ہیں، اگر اس بات پر غور کیا جائے کہ ہماری مالی حیثیت کیا ہے. تو شہر کا ایک بڑا طبقہ مالی طور پر پریشان ہے، اس شہر میں بسنے والوں کی اکثریت مزدوروں کی ہے. مالی وسعت رکھنے والے لوگ اس شہر میں خال خال ہی ہیں. اب مجھے بتائیے کہ جس شہر کے لوگ اپنے بچوں کے پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے صبح سے شام تک بے انتہا محنت کرتے ہیں، میاں کے ساتھ بیوی بھی اخراجات پورا کرنے کے لیے ہاتھ بٹاتی ہے. کیا اس شہر میں مہنگی تعلیم ظلم نہیں ہے، ایک جانب مزدور طبقہ سالانہ ایک سے دو لاکھ روپے کماتا ہے تو دوسری جانب بڑے ادارے جو معیاری تعلیم کا ہوا کھڑا کرتے ہیں ان کی سالانہ فیس، ڈونیشن اور اخراجات ایک سے دو لاکھ روپے بنتے ہیں. اب مجھے بتائیں کہ کیا ایک مزدور کا ذہین بچہ ان اداروں میں تعلیم حاصل کرسکتا ہے، ہم کہتے ہیں کہ غریب بچوں کے تعلیمی اخراجات ہم برداشت کرلیں گے لیکن کیا یہ بات سچ نہیں ہے کہ اخراجات تو اٹھائے جاتے ہیں لیکن اس کی عزت نفس کو کس قدر پامال کیا جاتا ہے، اسے ذلیل کیا جاتا ہے یہ کسی سے چھپا نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ بچہ جو بہت ذہین ہے لیکن بچہ مزدور کا ہے اس ذلیل اور عزت نفس کی دھجیاں اڑانے والی تعلیم سے بہتر یہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنے باپ کا ہاتھ بٹائے،مدد اور کفالت کے نام پر وہ امراء جو ذہنی طور پر مفلس ہیں یہ لوگ وہ حرکتیں کرتے ہیں کہ خدا کی پناہ!! میری بات سے آپ ضرور اختلاف رکھئے، آپ میری بات کی نفی کردیجئے لیکن یہ بات سچ ہے اور سو فیصد سچ ہے، الا ماشاءاللہ وہ لوگ انگلی پر گنے جاسکتے ہیں کہ قوم کی بھلائی جن کا مقصود ہو.

ہم مسلم معاشرے کی بات کریں تو معاشرے کا عمومی مزاج یہ بن چکا ہے کہ کسی کی مجبوری کا فائدہ اٹھاؤ، اس کی مجبوریوں کو کوڑیوں کے دام خریدلو. اس کا اس قدر استحصال کرو یا پھر اپنی قوت، طاقت، دولت اور اقتدار کے بل پر اسے اتنا مجبور کردو کہ وہ ساری زندگی تمہارا غلام بن کر گزاردے.ہم دوسرے مذاہب کے ماننے والوں میں تعلیم دینے کا طریقہ دیکھیں تو عمومی طور پر وہ ایک دوسرے کے حق میں مددگار، اور خیرخواہ ثابت ہوتے ہیں. اگرچہ کہ ہمارے معاشرے میں اچھے اور خیرخواہ لوگوں کی کوئی کمی نہیں باوجود اس کہ اگر کوئی پڑھنا چاہتا ہو تو اس کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کرنا پھر اس رکاوٹ کو خود ہی دور کرتے ہوئے اپنے آپ کو، سرسید، مخیر قوم و ملت یا تعلیم دوست کہلوانے کی جو عادت سی پڑگئی ہے اس نے قوم کے ان ذہنوں کو مفلوج کیا ہے جو کامیابیوں کے افق پر جگمگا سکتے تھے. (جاری)


نوحہ گر
افسانہ
از فیصل سعید
(ایڈمن گرداب فورم)

کچی دیواروں سے بنے گھر میں ہم چار جاندار رہا کرتے تھے ابٓا ، اماں ، میں اور ایک بکری۔ ابٓا مجھ سے بے انتہا پیار کرتا اور ہر روز میری رگوں میں اپنا ہنر انڈیلتا۔ جب کبھی مجھ سے کوئی غلطی سرزد ہوجایا کرتی تو وہ میرے سر پر ایک ہلکی سی چپت رسید کر دیا کرتا لیکن میری غلطی کی سزا بیچاری بکری کو بھگتنا پڑتی۔ ابا کا بے رحمی سے برستا ڈنڈا اور کھونٹے سے بندھی درد سے ممیاتی بکری کو دیکھ کر میں سہم جاتا۔ ابٓا کی یہ نا انصافی مجھے کبھی سمجھ نہ آئی، بس میری یہی کوشش ہوتی کہ میں وہ غلطی دوبارہ نہ دہراوں کہ جس کی سزا بکری کو ملے۔ ابا جب بکری کو مارتے مارتے تھک جاتا تو ڈنڈا زمین پر پھینک دیتا اوراپنی دونوں بانہیں پھیلا کر مجھے اپنے قریب آنے کا اشارہ کرتا۔ میں دوڑتا ہوا اپنے ابٓا کی گود میں چڑھ جاتا اوروہ مجھے پیار سے چمکارنے لگتا، میں ابا سے نظریں بچا کر خوف اور درد سے ہانپتی بکری کو کن انکھیوں سے دیکھتا اور دل ہی دل میں دوبارہ کوئی غلطی نہ کرنے کا عہد کرلیتا۔ ہرگزرتا دن میری غلطیوں کوسدھارتا چلا گیا، باپ کا ہنر بیٹے کے سینے پر مہارت کا تمغہ بن کر چمکنے لگا اورمیری دکھ کی ساتھی سکھ کی جگالی کرنے لگی۔


ایک شام ابا نے بکری کی رسی کھولی اور اسے میرے سامنے پچھاڑ دیا بکری گھٹی ہوئی آواز میں چلائی لیکن ابا نے بڑی ہی بے دردی سے اس کے گلے پر چھری پھیر دی۔ بکری کے نرخرے سے خون کا فوارہ ہوا میں اچھلا اور میرا پورا چہرہ خون سے رنگ گیا۔ میں بدحواسی کے عالم میں اِدھراُدھر بھاگنے لگا۔ ابا نے میرے سامنے بیٹھ کر بکری کا گوشت بنایا اوراسے آگ پر چڑھی دیگ میں پکانے لگا۔۔۔۔ شام ڈھلتے ہی آس پڑوس کے بزرگ اور خاندان کے کچھ افراد گھر میں اکھٹے ہوئے۔ دسترخوان بچھا کر لوگوں کے آگے کھانا رکھا گیا، وہ سب بہت دیر تک میری محسن کو اپنے حریص جبڑوں سے چباتے رہے اور نہ نگلی جانے والی ہڈیوں کو ہوا میں اچھالنے لگے۔ میں ہوا میں قلابازی لگاتا اوران ہڈیوں کو زمین پر گرنے سے پہلے ہی دبوچ لیتا، پھر تو جیسے لوگوں نے اسے کھیل ہی بنا لیا اور دیگ میں بچی آخری بوٹی تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ رات ہوجانے پر لوگ بھرے پیٹ اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ گھر خالی ہوتے ہی ابا نے ایک نظر مجھ پر ڈالی اور پھر وہ سونے چلا گیا۔۔۔ میں نے جمع کی ہوئی تمام ہڈیوں کو اکھٹا کیا اور اسے ایک ترتیب کیساتھ خون آلود رسی اور کھونٹے کے گرد رکھا اور سپیدۂ سحری تک میری سماعت قم باذن اللہ سننے کو بے قرار رہی۔


ابا ایک مداری تھا، لیکن خدا کے نزدیک وہ پورے خاندان کا درد اپنے جسم پر سہنے والی میری بکری سے کم نہ تھا ، رب جانے وہ تماشہ دکھاتا تھا یا خود ایک تماشہ تھا۔ جب لوگ میرے ابا کے گرد دائرہ بنا کر جمع ہوجاتے تو لوگوں کا رش اُس کے اندر ایک نیا جوش بھر دیتا اسکے نحیف بدن سے گرجدار آواز ایک معجزہ بن کر نکلتی۔ میری نظر ابا کے ڈگڈگی بجاتے ہاتھ اور ڈنڈے کی مانوس سفاکیت پر ہوتی اور ابا کی نظر تماش بینوں کی ٹھنسی ہوئی جیبوں پر، اسکی للچائی ہوئی آنکھیں جیبوں کی جانب رینگتے ہوئے ہاتھوں کو بڑی آس لگائے اس خیال سے دیکھا کرتیں کہ ناجانے کب کوئی ہاتھ اسکی جانب پیسہ اچھال دے۔ میں سارا وقت زمین پر پڑے سکے جمع کرتا اور اسے ابا کے آگے رکھے برتن میں ڈال دیتا، روپیہ دیکھ کر ڈگڈگی کی ڈگ ڈگ اور ابا کی آواز اس قدر بلند ہوجاتی کہ آسماں پر سوئے فرشتے تک جاگ اٹھتے لیکن پھر بھی خدا کی آنکھ نم نہ ہوتی۔ خدا کو یوں خاموش اور مصروف پا کر فرشتے فرات کے اجلے پانیوں اورسرخ ریت کو یاد کرتے ہوئے دوبارہ سوجاتے۔


گھر میں ایک ننھےفرشتے کی آمد متوقع ہے، گھر میں ایک اور نوحہ گر ماں کی کوکھ میں اپنی باری کے انتظار میں ہے۔ واہ رے مولا ! تو بھی فرشتے کے جسم پر پیٹ ٹانک کر اُسے انسان بنا دیتا ہے اور بھوک اسے حیوان۔ ابا اکثر معدے میں تیزابیت کا بہانہ کرکے راتوں کو خالی پیٹ ہی سوجایا کرتا، شائید اس لئے کہ میری ماں اور اسکی کوکھ میں پلنے والا نیا مداری بھوکے نہ سوئیں۔ دکھ آکاس بیل بن کر اس کے بدن سے لپٹا ہوا تھا اور وہ آہستہ آہستہ ابا کو کھا رہا تھا، نئے مداری کی آنکھ کھلنے سے پہلے ہی پرانے مداری کی آنکھ بند ہوگئی۔ تماشہ وقت سے پہلے اپنے انجام کو پہنچا لیکن رکا نہیں، اب ڈگڈگی ماں کے ہاتھ میں تھی اور نیا مداری ماں کے پیٹ میں۔ ماں اور میں گلی گلی ڈگڈگی بجاتے ہوئے ابا کا نوحہ دہرانے لگے۔ تماشہ وہی پرانا تھا اور تماش بین بھی لیکن پیسہ پہلے سے کہیں زیادہ برستا تھا، میری عقل چھوٹی تھی اس لئے دیر سے سمجھ آیا اب تماش بین کی آنکھوں میں حیرت اور دلچسپی کے ساتھ ساتھ بھی شامل تھی۔


پھر ایک دن اچانک ڈگڈگی بجتے بجتے دوبارہ خاموش ہوگئی میں نے جب پلٹ کر دیکھا تو میری ماں درد سے تڑپ رہی تھی لیکن میں اس درد کو سمجھنے سے قاصرتھا۔ ایک دفعہ ڈگڈگی بجنا بند ہوئی تو میرا باپ مجھ سے جدا ہوگیا، پھر جب آج دوبارہ ڈگڈگی کھیل ختم ہونے سے پہلے خاموش ہوئی تو دل میں خیال آیا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ میری ماں بھی مجھ سے بچھڑنے والی ہے ۔۔۔ میں دوڑتا ہوا اپنی ماں کے قریب پہنچا تو دیکھا وہ اپنے پیٹ پر دونوں ہاتھ رکھے درد سے کراہ رہی تھی، میں نے اسکے ہاتھوں میں ڈگڈگی اور ڈنڈا تھمایا اوراپنی پہلی والی حالت میں کھڑا ہوگیا لیکن ڈگڈگی پھر بھی نہ بجی پلٹ کر دیکھا تو دونوں چیزیں ایکبار پھرزمین پر تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بے حسی چاروں جانب رقصاں تھی تماش بین میری ماں کے گرد گول دائرے کی صورت میں کھڑے تھے۔ ان سب کے لئے ایک نیا تماشہ شروع ہوچکا تھا۔ ایمبولینس بھیڑ کو چیرتی ہوئی آگے بڑھی اور میری ماں کو زندہ نگل لیا۔ بس اس دن کے بعد سے میں اپنی ماں کا چہرہ دوبارہ کبھی نہ دیکھ سکا۔۔۔


میرے پاس وہ ڈگڈگی آج بھی موجود ہے، جب کبھی مجھے اپنے اماں ابا کی یاد آتی ہے تو میں اسے لے کر بازار کی جانب نکل پڑتا ہوں- لوگوں کے درمیان کھڑا ہوکر اسے زور زور سے بجاتا ہوں اور اپنے دونوں ہاتھ اوپر کئے دیوانہ وار ناچنے لگتا ہوں۔۔۔ چند پرانے تماش بین مجھے پہچان کر میری جانب روٹی اچھال دیتے ہیں، کچھ لوگ اب بھی خدائی صفت کا بھرم قائم رکھتے ہیں اور مجھے دیکھے بغیر ہی گزر جاتے ہیں لیکن میں ان باتوں کی پرواہ کئے بغیر ناچتا ہی چلا جاتا ہوں۔ جب چند شرارتی بچے مجھے پتھر مارتے ہیں تو اپنی ماں اور پیاری بکری کی تکلیف یاد آجاتی ہے، کسی نامعلوم سمت سے اچانک نمودار ہوجانے والی ایمبیولینس کے خوف سے میں چیختا چلاتا قریبی درخت پر چڑھ جاتا ہوں اوراس کی شاخوں کو اس زور سے ہلاتا ہوں کہ اسکے سارے پتے جھڑ جاتے ہیں۔۔۔ میں درخت کی ننگی شاخ پر بیٹھا آسمان کی جانب سر اُٹھا کر ایک بار پھر ڈکڈگی بجا کر اپنے ابا کا نوحہ دہرانے لگتا ہوں ۔۔۔
ڈگ، ڈگ، ڈگ ۔۔ڈرپ۔۔۔ڈگ، ڈگ، ڈگ،ڈگ ،ڈگ، ڈگ ۔۔۔۔۔ ڈرپ۔۔۔۔ڈگ ڈگ۔۔


سوئے ہوئے فرشتے دوبارہ جاگ جاتے ہیں، لیکن اس دفعہ وہ خدا کی بنائی ہوئی بے شمار ڈگڈیاں آسمان سے زمیں کی جانب اچھال دیتے ہیں اور وہ سب ایک ایک کرکے سیکڑوں ماوں کی کوکھ میں پیوست ہوجاتیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


حمد

خالقِ ابتدا کون ہے ، صرف تو
مالکِ انتہا کون ہے ، صرف تو

ربّ ِ روزِ جزا ٕ کون ہے ، صرف تو
سب کا رب العلا کون ہے ، صرف تو

پتہ پتہ کرے بوٹا بوٹا کرے
جس کی حمد و ثنا ٕ کون ہے ، صرف تو

جز کا مختار بھی کل کا مختار بھی
اور تیرے سوا کون ہے ، صرف تو

تو ہی ظاہر بھی ہے تو ہی باطن بھی ہے
سب کے دل میں بسا کون ہے ، صرف تو

تو ہی اول ہے اور تو ہی آخر بھی ہے
ہستی ٕ لا فنا کون ہے ، صرف تو

چاند سورج ستارے بھی محکوم ہیں
ربّ ِ عرض و سما ٕ کون ہے ، صرف تو

تیرے محتاج ہیں جگ کے شاہ و گدا
خلق کا آسرا کون ہے ، صرف تو

میں پریشان ہوں راحتیں دے مجھے
حالِ دل جانتا کون ہے ،صرف تو

ہم گہنگار ہیں بخش دے تو ہمیں
مہر باں خیر خواہ کون ہے ، صرف تو

مولیٰ شاہیں کو بھی وسعتیں ہو عطا
ربّ ِ جود و سخا کون ہے ، صرف تو

از قلم۔۔۔۔فاطمہ شاہین کرناٹک
انتخاب۔۔ابواللیث کامرانی

____🔴

ایک غزل
فرحان دل مالیگاوں

تجھ سے منسوب جو افسانے بنا رکھّے ہیں
ہم نے بربادی کے عنوان سجا رکھّے ہیں

اب خموشی ہی مقدّر ہے کہ باقی نہیں کچھ
سب فسانے تو تجھے میں نے سنا رکھّے ہیں

ایک میں ہوں کہ مرا پہلا یقیں تم پر ہے
تم نے میرے لیے اندازے لگا رکھّے ہیں !!

میں نے پلکوں پہ ترے اشک سے ملتے جلتے
کچھ ستارے تری آنکھوں سے چھپا رکھّے ہیں

واسطہ تک نہ تھا جن کا مرے اعمال کے ساتھ
میں نے تقدیر کے وہ زخم بھی کھا رکھّے ہیں

آج وہ نام اگر لوں تو قیامت ہوجائے
میں نے کچھ سوچ کے جو کل پہ اٹھا رکھّے ہیں

جن سے میں بھی نہیں گذرا کبھی دیوانگی میں
میں نے وہ در بھی ترے نام پہ وا رکھّے ہیں

میں نے اک پیڑ پہ لکھّے ہیں ہمارے دو نام
اور اسی پیڑ پہ دو دل بھی بنا رکھّے ہیں

🖋 فرحان دِل ـ مالیگاؤں ـ
📞 9226169933
::_

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے