دیارِ ادیب مالیگاوں سیف نیوز ادبی پوسٹ مالیگاوں

رحمٰن عباس کا دوسرا تیر اور خالد جاوید سے ہمدردی اور دوستی کا ڈھونگ
✍️اشعرنجمی

گزشتہ دنوں رحمٰن عباس نے خالد جاوید پر سرقے کا جو جھوٹا الزام لگایا تھا، اس پر جس طرح ہندوستانی قارئین اور ادیبوں نے ردعمل کا اظہار کیا (جو ہنوز جاری ہے)، وہ خود رحمٰن عباس کے لیے شاید غیر متوقع ہوگا۔ اگرچہ رحمٰن عباس کی خالد کے خلاف اس مخاصمانہ جدوجہد کی کہانی بہت پرانی ہے جس کی ایک جھلک اس کی کتاب ’اکیسویں صدی میں اردو ناول‘ نامی کتاب میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ خیر بات طویل ہوجائے گی، میں مختصر میں تازہ صورت حال بتانے کے لیے یہ پوسٹ لکھ رہا ہوں۔ پروفیسر کوثر مظہری، اکرام خاور، خورشید اکرم، ابرار مجیب، رضوان الحق وغیرہ جیسے بیسیوں محترم ادیبوں کے علاوہ کئی با صلاحیت ریسرچ اسکالرز نے بھی رحمٰن عباس کے اس بزدلانہ اور اوچھے وار کی سختی سے مذمت کی۔ رحمٰن عباس نے ایک طویل مجرمانہ خاموشی کے بعد ’ہتک عزت‘ کے مقدمے کے خوف سے اپنے ترکش کا دوسرا تیر چھوڑا ہے۔

اس بار بھی رحمٰن عباس نے فیصل اقبال اعوان ہی کے کندھے پر ہی اپنی کمان رکھی ہے اور خالد جاوید پر نشانہ سادھا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس نے اب اپنے تیر کا نشانہ ’موت کی کتاب‘ سے ہٹا کر خالد کے دو سرے دو ناولوں ’نعمت خانہ‘ اور ’ایک خنجر پانی میں‘ کی طرف اس کا رخ کردیا ہے۔ رحمٰن نے اپنی تازہ ترین پوسٹ میں فیصل اقبال اعوان کے ایک دوسرے مضمون ’ادیب نما مسخروں کا دور‘ کا لنک بھی بقول اس کے ’دلی کے ایک پروفیسر‘ (پروفیسر کوثر مظہری) اور ’خالد جاوید کے ایک طالب علم‘ (سفیر صدیقی) کے نام بطور خاص معنون کیا ہے۔ ایک ہی تیر سے دو نہیں کئی کئی شکار کرنے والا رحمٰن عباس سچ مچ مودی جی کا سچا بھکت ہے۔ خیر، اس جملۂ معترضہ سے قطع نظر میں یہاں فیصل کے اس نئے مضمون کے اس آخری پیراگراف پر آنا چاہتا ہوں جسے رحمٰن عباس نے بڑی چالاکی کے ساتھ مقتبس کیا ہے اور خالد سے ہمدردی کا ڈھونگ رچ رہا ہے۔ پہلے فیصل کے دوسرے مضمون کا وہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:

"ان ادیب نما خود پرستوں میں سے کچھ تو ذاتی تشہیر میں اتنے مشاق ہو چکے ہیں کہ انہیں کرائے کے مضمون نگاروں کی بھی ضرورت نہیں رہی۔ یہ اصل میں اپنا کام اپنے ہاتھ سے کرنے کے قائل ہیں۔ انہی میں سے ایک حضرت، ہمارے ہمسایہ ملک میں اپنی تخلیقی عظمت کا علم خود ہی اٹھائے ہوئے ہیں۔ موصوف نے پہلے تو مارکیز کے انٹرویو سے ’’کچھ خاص غذاؤں کی بابت کولمبیا کے لوگوں کا عقیدہ ہے کہ ان کی مہک سے بلائیں آتی ہیں‘‘ والی بات چرا کر من و عن اپنے ناول کے پلاٹ میں ڈال دی اور اردو ادب میں میجیکل رئیلزم کی درآمد معاف کیجئے گا آمد کا دعویٰ کر دیا۔ اور اب حال ہی میں رومن پولنسکی کی فلم ’’knife in the water‘‘ کو چرا کر اپنے نئے ناول کا نام رکھ لیا۔ اس بین الاقوامی سرقیدگی کے بعد اگر وہ اپنی تحریر کو عالمی سطح کی “تخلیق” کہتے ہیں تو کیا غلط کہتے ہیں؟”

اس پیراگراف کی دو شقیں ہیں جن کی بنیاد پر خالد جاوید پرسرقے کا الزام لگایا جارہا ہے:
(1) ’ایک خنجر پانی میں‘ کا عنوان رومن پولنسکی کی فلم Knife in the water کا سرقہ ہے۔
(2) مارکیز کے ایک انٹرویو کی بنیاد پر خالد نے ’کچھ خاص غذاؤں کے بارے میں ‘ کولمبیا کے باشندوں کے عقیدے کو چرا کر اپنے ناول ’نعمت خانہ‘ میں شامل کرلیا۔

آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ الزامات تو فیصل اقبال اعوان نے لگائے ہیں، اس میں رحمٰن عباس کا کیا قصور، وہ بیچارہ تو اس کے خلاف احتجاج کررہا ہے۔ ممکن ہے آپ اتنے ہی معصوم ہوں جتنے وہ لوگ جو مودی جی کے ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب کا وشواس‘ کے نعرے پر یقین کرتے ہیں۔ رحمٰن ، خالد کو آج کل اپنا دوست بتاتے ہوئے نہیں تھک رہا جب کہ اسی دوست پر اس نے اپنے طویل مضمون ’اکیسویں صدی میں اردو ناول‘ پر کتنا چھچھورا الزام لگایا تھا، وہ شاید کسی کو یاد نہ ہوگا۔ پھر یہ کہ خالد اور رحمٰن ایک دوسرے کے کبھی دوست نہیں رہے۔ دراصل رحمٰن دوستی اور ہمدردی کی آڑ میں خالد کی پیٹھ پر خنجر گھونپنے کی روایت کی تجدید کررہا ہے۔ فیصل اقبال اعوان کے دو سال پرانے مضمون کو منظر عام پر لا کر وہ جتا نا چاہ رہا ہے کہ دیکھو جس نے میرے خلاف لکھا ، اس نے خالد جاوید پر بھی تو لکھا تھا، اس لحاظ سے وہ خالد جاوید کی ہمسری کا دعویٰ بار بار کررہا ہے جسے ہمارے بھولے بھالے (اور معاف کیجیے گا کچھ چوتیے) سمجھ نہیں پا رہے ہیں۔ چلیے آئیے اوپر لگائے گئے سرقے کے الزام کی دو شقوں کو ذرا محدب شیشے کی مدد سے دیکھتے ہیں کہ معاملہ کیا ہے۔

(1) سرقے کے پہلے الزام کی بنیاد یہ ہے کہ خالد کے ناول ’ایک خنجر پانی میں‘ کا عنوان رومن پولنسکی کی فلم knife in the water کا سرقہ ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے میں رحمٰن اور فیصل دونوں سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا خالد کا ناول بھی رومن پولنسکی کی متذکرہ فلم کا سرقہ ہے؟ یا پھر صرف عنوانات میں مماثلت ہے؟ اگر صرف عنوانات میں مماثلت ہے تو پھر معاف کیجیے گا میں کچھ اور عنوانات کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ مثلاً فلم ’آرزو‘ بھی بنی اور اسی نام سے ناول بھی موجود ہے، اس میں سرقہ کس نے کیا؟ ایک اور کافی مشہور اور کلاسیکی ہندی فلم ہے ’مدر انڈیا‘، اس پر شاید رحمٰن اور فیصل جیسے کچھ نکتہ چینوں نے ہی الزام لگا یا تھا کہ ’مدر انڈیا‘ دراصل Katherine Mayo (1867-1940) کی کتاب کا سرقہ ہے ۔ اس وقت محبوب خان نے سرے سے اس الزام کر ردّ کرتے ہوئے کہا کہ ’مدر انڈیا‘ دراصل کیتھرائن مایو کی کتاب کی ردّ میں بنائی گئی ہے چونکہ جس طرح کیتھرائن نے اپنی کتاب میں ہندوستانی عورت کا ایک رخ پیش کرکے اس کی تذلیل کی ہے ، اس کے برعکس ’مدر انڈیا‘ میں ہندوستانی عورت کی شخصیت کے وسیع تر پہلوؤں کو پیش کیا گیا ہے۔ لیکن ممکن ہے رحمٰن اور فیصل دونوں اب بھی ’مدر انڈیا‘ کو سرقہ ہی تصور کرتے ہوں۔

خیر بات چل رہی تھی، مماثل عنوانات کی تو اس پر ابھی گفتگو جاری رکھتے ہیں۔ فضیل جعفری کی ایک معروف تنقیدی کتاب ہے۔جو ایڈمنڈ ولس کی کتاب The Wound and the Bow کا غالباً سرقہ ہوگا؟ خالد جاوید ہی کے ایک افسانہ کا عنوان ہے: ’کوبڑ‘ لیکن شوکت حیات نے کافی بعد اسی عنوان سے ایک افسانہ لکھا تھا، میرے خیال میں یہ بھی سرقہ ہوگا؟ خود میرا ناول ’اس نے کہا تھا‘ ہندی کے بہت ہی پرانے معتبر اور محترم قلم کار چندر دھر شرما گلیری کے ناول کے مماثل ہے، تو یقیناً میں نے گلیری کے ناول کا سرقہ ہی کرلیا ہوگا؟ پھر تو یہ بھی لوگ کہہ سکتے ہیں کہ بھئی شمس الرحمٰن فاروقی کے ناول کا عنوان ’کئی چاند تھے سر آسماں‘ احمد مشتاق کے مصرعے کا سرقہ ہے؟ اورپھر تو قرۃ العین حیدر کے تقریباً سارے ناول ُآگ کا دریا‘، ’گردش رنگ چمن‘، ’کار جہاں دراز ہے‘ وغیرہ وغیرہ سب سرقہ قرار دے دیا جائے گا۔ یہ سلسلہ کہاں تک جائے گا، مجھے پتہ نہیں، لیکن رحمٰن اور فیصل دونوں کو مماثل عنوانات پر پھلجھڑیاں چھوڑتے ہوئے کم از کم ایک گلاس گنّے کا تازہ جوس تو پی ہی لینا چاہیے تھا تاکہ ان کا دماغ ٹھنڈا رہتا اور ایسی اول جلول باتیں نہ کرتے جس سے ان کی صحیح الدماغی پر لوگوں کو شک ہوتا۔ خیر جانے دیجیے ، پوسٹ طویل ہوجائے گی، دوسری شق پر آتا ہوں۔

(2) رحمٰن عباس نے فیصل اقبال اعوان کے حوالے سے کہا ہے کہ ’نعمت خانے‘ میں خالد جاوید نے مارکیز کے ایک انٹرویو سے کولمبیا کے لوگوں کی کچھ خاص غذاؤں کے متعلق عقیدے کو چرا کر اپنے پلاٹ کا حصہ بنا لیا۔ اس الزام پر تو سر پیٹنے کا بھی جی نہیں چاہتا۔ شاید مارکیز سے پہلے انتھونی برگر نے اس سے ملتی جلتی بات کہی تھی ، تو پھر ممکن ہے کہ فیصل اور رحمٰن اب کہیں کہ مارکیز نے انتھونی کے خیال کو چرا لیا تھا۔ لیکن مصیبت یہ ہے کہ انتھونی برگر سے ہزاروں سال پہلے ہندو مائتھالوجی میں کھانے کے تعلق سے پورا فلسفہ ہے، تو پھر اب شاید کہا جائے گا کہ انتھونی برگر نے ہندو فلسفہ سے یہ خیال چرا لیا۔ اور دور کیوں جائیے، خود رحمٰن کے ناول زندیق پر جب فیصل اقبال اعوان ایک جگہ کہتے ہیں: ’’ناول کی آڑ میں اس کے جنرل نالج میں مفت اضافہ کرنے کا پربندھ کیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی مصنف نے پورے ناول میں جگہ جگہ گوگل کی مدد سے قاری کی معلومات میں اتنا جبری اضافہ کیا ہے کہ وہ بے چارا گوگلایا گوگلایا پھرتا ہے‘‘ تو یقیناً فیصل نے زندیق پر گوگل سے سرقے کا الزام ہی عائد کیا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ رحمٰن کے ناول ’زندیق‘ پر فیصل اقبال اعوان نے ان تمام ماخذ کی نشان دہی کی ہے جسے رحمٰن نے اپنے ناول میں ڈائجسٹ کیا ہے، ملاحظہ کیجیے:

’’اب باری آتی ہے ان کتب وغیرہ کی جن کا صفحہ نمبر 782 تا 784 پر مصنف نے حوالہ بھی دیا ہے۔ لیکن یہ نہیں بتایا کہ مذکورہ اقتباسات و حوالہ جات ناول کے کتنے صفحات ہڑپ کر گئے ہیں. تو سنیے حضور: صفحہ نمبر 216, 217 اور 218 میں مولانا امین اصلاحی کی تحریر “حروف مقطعات” سے اقتباسات دیے گئے ہیں۔ صفحہ نمبر 225 تا 228 پر سید قاسم محمود کی تحریر معہ ان کے تعارف کے من و عن رقم کی گئی ہے۔ صفحہ نمبر 253 پر روزنامہ ” جسارت” سے چنی گئی تحریر پیش کی گئی ہے۔ صفحہ نمبر 352، 353، 354 اور 355 کو پنجاب کے فسادات سے متعلقہ رپورٹ چاٹ گئی ہے۔
’’اسی طرح صفحہ نمبر 250، 251 اور 252، مولانا عبد الحمید ترابی کی تقریر کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔ صفحہ نمبر 280 پر ایک بنگالی ڈائریکٹر کی بنائی گئی فلم کی سٹوری سنائی گئی ہے۔ صفحہ نمبر 255 پر بوسنیا کے ادیب کریم زائمویچ کی کتاب اور حالاتِ زندگی سے مختصر آگاہی بخشی گئی ہے ( قاری کو ہرگز نہیں بخشا گیا) صفحہ نمبر 293 پر زبیر علی قریشی اور ان کے ناول کا غیر ضروری تذکرہ ہے اور صفحہ نمبر 294 تا 296 قارئین کو قریشی صاحب کے ناول کی کہانی سنا کر معتوب معاف کیجئے گا محظوظ کیا گیا ہے۔ صفحہ نمبر 301 اور 302 پر سورج مندروں، راجاؤں اور ان سے منسوب روایات کا تذکرہ ہے۔ صفحہ نمبر 303 پنڈت کلہن کی کتاب ” راج ترنگنی” اور کشمیر کی تاریخ کھا گئی ہے۔ صفحہ نمبر 385, 386 ,387, 388, 389 اور 390 محمد عامر رانا کی کتاب “جہاد کشمیر و افغانستان” کو بلیدان کیے گئے ہیں۔صفحہ نمبر 395 تا 398 تاریخ، رزمیہ اور اساطیر کی مدد سے ہندوتوا تنظیموں کے مفروضاتی عقائد ہڑپ کر گئے ہیں۔ صفحہ نمبر 412 اور 413 ملٹری انٹیلیجنس کانفرنس میں پیش کیا گیا ثناءاللہ کا مقالہ ڈکار جاتا ہے۔ صفحہ نمبر 414 تا 421 ریسرچ کمیٹی کی رپورٹ, جس میں قرآن، احادیث کی کتب اور دیگر اسلامی تحریروں سے 18 سے زائد حوالے دئیے گئے ہیں, ہضم کر گئی ہے۔ صفحہ نمبر 425 اور 428 رسالہ سب رنگ ممبئی سے لیے گئے اقتباسات نے اچک لیے ہیں۔ صفحہ نمبر 426 برنارڈ شلنک کا ناول اور اس پر بننے والی فلموں کے تذکرے نے لوٹ لیا ہے۔ صفحہ نمبر 447، 448 اور 449 خواب میں بیان کردہ مہا بھارت اڑا لے گئی ہے۔‘‘

اس طویل اقتباس کو یہاں نقل کرنے کا مقصد صرف اتنا ہی ہے کہ اگر رحمٰن عباس ، خالد جاوید کا اتنا ہی بڑا ہمدرد ہے کہ مارکیز کے انٹرویو (جس کا اصل متن مجھے دیکھنا ابھی باقی ہے اور وہ میں دیکھوں گا بھی)اور رومن پالنسکی کی فلم کے نام سے اتنا دکھی ہوگیا تو پھر اس کے ناول پر تو فیصل نے گوگل سے لے کر ان تمام کتابوں کی فہرست بھی پیش کردی جس کا رحمٰن نے حوالہ تو دیا لیکن یہ نہیں بتایا کہ کتنے صفحات وہ ان حوالوں کی آڑ میں ناول دوڑاتا رہا۔ میرے خیال میں اسے سب سے زیادہ تو خود پر لگے سرقے کے الزامات سے دکھی ہونا چاہیے اور شاید ہوا بھی ہے، یہ اور بات ہے کہ اس نے خالد کی آڑ میں اس سے اپنا حساب برابر کرنا چاہا۔

خالد جاوید کی ایک معروف کہانی ہے، ’آخری دعوت‘۔ اس کہانی کا پلاٹ کیا ہے؟ اس کا پلاٹ حضرت عیسیٰ کے تعلق سے وہ معروف روایت ہی تو ہے جب وہ اپنے حواریوں سے ساتھ رات کا آخری کھانا کھا رہے تھے۔ اب اگر فیصل اقبال یا رحمٰن مارکیز کے انٹرویو کی ایک معلوماتی بات کو (جس کا تخلیق سے کوئی رشتہ نہیں بلکہ خبر سے ہے اور اس کی کیا ضمانت ہے کہ خالد نے یہ خبر بھی مارکیز کے انٹرویو سے اخذ کیا ہے، جب کہ ہندو فلسفہ میں غذاؤں کے تعلق سے تفصیلی مباحث مل جاتے ہیں جو انسانی نفسیات پر اثر انداز ہوتے ہیں اور کون نہیں جانتا کہ خالد کا پہلا عشق فلسفہ ہے)’نعمت خانہ‘ سے جوڑ کر دیکھ سکتے ہیں تو پھر کل کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ ’آخری دعوت‘ کا پلاٹ بھی مستعار ہے یا سرقہ ہے۔ اور پھر ’آخری دعوت‘ ہی کیوں، پورے کے پورے میر انیس اور دبیر کو ہی کل فیصل اور رحمٰن سرقہ باز قرار دے دیں تو حیرت نہیں ہونی چاہیے، چونکہ انھوں نے تو ایک تاریخی واقعہ کو ہی اپنی تخلیقی اساس بنالیا اور اسی ایک واقعے میں اپنے تخلیقی جوہر دکھائے ۔ لیکن فیصل اور رحمٰن اس پر بضد ہوسکتے ہیں کہ نہیں جناب کولمبیا کی طرح میر انیس و دبیر نے ایک تاریخی واقعہ کو چرا کر اپنے مرثیے کا پلاٹ بنا لیا ۔ قصہ مختصر یہ کہ یہ سلسلہ دراز ہوتا ہوا شاید حضرت آدم تک پہنچ جائے کہ ادب اور فن کے جتنے موضوعات ہیں سب وہیں سے سرقہ ہیں۔ حد ہوگئی یار۔ کون لوگ ہو تُسی؟

خیر، رحمٰن عباس کے اطمینان کے لیے صرف ایک آخری بات گوش گزار کرنا چاہتا ہوں کہ وہ کچھ بھی کرلے، وہ کم از کم اس جنم میں تو خالد جاوید کی ہمسری نہیں کرپائے گا اور کم از کم اس طرح کے چھچھورے پن سے تو بالکل نہیں۔ اس کے علاوہ وہ لاکھ تشہیری مہم چلا لے، چاہے لاکھ انگریزی، جرمنی، یا دوسری زبانوں میں اپنے دو ٹکے کے ناول کا ترجمہ کرالے، جوڑ توڑ کرکے ہندوستان اور بیرون ہند کے تمام ادبی ایوارڈ لے لے، انٹرنیشنل بکر پرائز حتیٰ کہ نوبل پرائز تک لے لے لیکن اس کا مقام اردو کے ادب عالیہ میں صفر تھا، صفر ہے اور صفر رہے گا۔

احباب کو بھی ایک اطلاع دینا چاہتا ہوں کہ کئی لوگوں نے مجھ سے ذاتی طور پر سوال کیا کہ خالد جاوید کیوں اس معاملے میں منھ نہیں کھول رہے ہیں۔ سب سے پہلی بات یہ کہ دنیا جانتی ہے وہ اپنی تعریف پر بھی منھ نہیں کھولتے، تو پھر کسی دو کوڑی کےشخص کو عزت کیوں کر دیں گے۔ ویسے اطلاعاً عرض ہے کہ وہ ان دنوں اپنی بہن کی شادی کی تیاریوں میں ذہنی اور جسمانی طور پر کافی مصروف ہیں جو پندرہ نومبر کو بریلی میں ہورہی ہے۔ اس کے بعد وہ شاید اس سلسلے میں اپنے موقف کا اظہار کریں گے لیکن فی الحال انھوں نے رحمٰن عباس کو فیس بک پر اور فون پر بلاک کردیا ہے۔ رہے نام اللہ کا۔


انہماک رومانٹک فینٹسی نشست ..16
سوتا بدن _ احمد نعیم وہ کہاں سوتا تھا ؛اس کا بدن سوتا تھا ،جیسے صدیوں کا جاگا ؛دیکھتا بھی تھا کچھ ایسا ہی ؛ جاگتے جاگتے اُسے خود سو جانا پڑتا – ، مگر بدن ہمیشہ سو جاتا ؛اسے نیند نہ آتی وہ چاہتا بھی سونا تو بدن کے سو جانے سے وہ سونے سے محروم رہتا بدن تو پرایا ہے وہ کیوں کر جاگے……!! وہ تو اپنا ہے – ؛وہ کیسے سوئے آنکھوں میں موسم دیکھتی نیند ہمیشہ وہ اُسے محروم رکھتا – آج تو اُسے خاص طور پر جاگنا تھا ؛ وہ نہ سونے کا اہتمام کرنے لگا – مگر آج بھی بدن سوگیا – وہ جذبات سے عاری تھا کچھ کر بھی نہ سکا – وہ جاگتا رہا – آج کا دن ابھی گزار نہیں ؛ اُسے ابھی تک جاگنا پڑا مگر یہ آج ختم ہی نہیں ہورہا – وہ کیا کررہے آج کے ختم نہ ہو نے میں صدیاں بیت گئیں مگر
آج کے اس لمحے میں وہ بس سو ہی جانا چاہتا تھا –
جانے کیسے سوتا بدن بھی جاگ گیا – وہ بے خیالی میں سوتے بدن میں چلا گیا وہ بھول گیا کہ اُسے سونا ہے –
بدن پھر سوَ گیا – مگر وہ _

اب بدن سے باہر بھی نہیں آسکتا – ؛
بدن سو رہا تھا – مگر وہ اب بھی سوتے بدن میں جاگنا چاہتا تھا *


غزل
اپنی مجبوریاں ہی دھو جاؤ
مر چکا ہوں سو مجھ کو رو جاؤ
۔
میں سناتا ہوں ایک جسم کا دکھ
اور تھوڑا قریب ہو جاؤ
۔
اچھے بادل! اداس پیڑ ہیں ہم
یا گزر جاؤ یا بھگو جاؤ
۔
میں تمہیں ڈھونڈنے نکلتا ہوں
تم کہیں دور جا کے کھو جاؤ
۔
نیند کی گولیوں سے بہتر ہے
میرے حصے کی نیند سو جاؤ
۔
فرزاد علی زیرک

alizeerak

🔴انتخاب و ٹائپنگ احمد نعیم مالیگاؤں
📙موت ڈاٹ کام مالیگاوں بھارت 📙

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے