میری باری کب آئے گی

از قلم محمد عمیر انصاری

کیا حکومت وقت کی جانب سے مالیگاؤں شہر میں کوئی روزگار کا ذریعہ ہے۔؟

روزانہ مالیگاؤں شہر سے کروڑوں روپیہ جی ایس ٹی ٹیکس کی صورت میں حکومت کو جاتا ہے اس کے بدلے ہمیں ریفنڈ ایبل سہولیات کیا ملتی ہے۔؟

بجلی کے چارجز بڑھائے جا رہے ہیں

نل پٹی ہر سال پانچ پرسنٹ بڑھا دی جاتی ہے

صاف صفائی کے نام پر ٹیکس بڑھائے جانے والے ہیں

شہر کے تمام تر شعبے پرائیویٹائزیشن کے حوالے کیے جا رہے ہیں اور پرائیویٹ کمپنیاں لاپرواہی کر تانا شاہی اور ہٹلر شاہی طریقوں سے کام کر رہی ہے

کیا شہر کے کنزومر اپنی باری آنے کا انتظار کر رہے ہیں مالیگاؤں پرائیویٹ بجلی کمپنی کا ظلم کسی سے چھپا ہوا نہیں ہیں شہر کے اندر بے انتہا پرائیویٹ بجلی کمپنی کی جانب سے ظلم اور زیادتی ہو رہی ہے لیکن کسی بھی طرح کی کوئی آواز بلند نہیں کی جا رہی نہ کسی بھی طریقے کا کوئی ایسا احتجاج ہوا جس سے کوئی بھی حاصل ہو۔

گزشتہ پانچ مہینہ پہلے مہاراشٹر بجلی بورڈ کی جانب سے ایف اے سی چارج کو بڑھا دیا گیا تھا کوئلے کی قلت کا عذر پیش کیا گیا تھا لیکن ابھی سننے میں آرہا ہے کہ کسی بھی طرح کا احتجاج نہیں ہونے کی وجہ سے پورے مہاراشٹر کے لیے ایف اے سی چارج کو مستقبل میں بھی مستقل کے لیے رکھا جاسکتا ہے۔ اور یہ ایف اے سی چارج صرف صنعتی اور کاروباری لوگوں کے لیے ہی نہیں بلکہ دکانداروں کے لئے اور گھریلو بجلی صارفین کے لیے بھی بڑھا دیا گیا ہے کب

عوام ہوش میں آئےگی کب اپنے حق کی لڑائی لڑے گئی ہے۔ جو پیسہ ہمارے بچوں کی تعلیم میں ہمارے بزرگوں کے علاج و معالجے میں اور یتیموں کی کفالت میں لگانے ہیں۔ ہماری اس حلال روزی کو ہم اتنی آسانی سے کیسے اپنے ہاتھ سے جانے دے سکتے ہیں ۔ جو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت بجلی و بھاگ کی جانب سے پہلے کوئلے کی قلت کی بات کی گئی اس کو پیش کرتے ہوئے اب ایف ایس سی چارج کو بڑھا دیا گیا مینٹیننس کے نام پر اور چارجز بڑھائے جا رہے ہیں۔

فروری 2023 میں پاور لوم صنعت کو ملنے والی سبسڈی کی مدت پوری ہو رہی ہے۔ حکومت وقت کی جانب سے ہمارے شہر کے اندر کسی بھی طریقے کا کوئی روزگار نہیں دیا جاتا نہ کوئی سرکاری کمپنیاں ہیں نہ کوئی فیکٹریاں نہ کسی بھی طریقے کا مستقبل میں کوئی پروجیکٹ ہمارے شہر کے لئے ہے جس سے ہمارے شہر کے اندر کوئی نیا روزگار آئے۔ اور نہ ہی پڑھے لکھے گریجویٹ حضرات کے لئے کوئی کمپنیاں نظر آتی ہیں۔

تو ہم اپنے سیلف بزنس سے کتنا بچائیں گے کب تک بچائیں گے اور حکومتوں کو جی ایس ٹی کی صورت میں کارپوریشن کے ٹیکس کی صورت میں بجلی کے ریٹ بڑھ جانے اور بجلی کے چارجز بڑھ جانے کی صورت میں کب تک ہم اپنا حلال رزق ان کے منہ میں ڈالتے رہیں گے۔ شہر کو اس طرح کے معاملات میں سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے اور اپنی ذاتی مفاد کو بالائے طاق رکھ کر سماجی سیاسی ملی مسلکی اختلافات سے اٹھ کر ہمیں ایک ہوکر اس لڑائی کو لڑنا چاہیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے