آج جنتا دل کی پریس کانفرنس اور اس کی پریس نوٹ من وعن

مالیگاؤں شہر کی تعمیر و ترقی کے لیے ہمارے اسلاف، جن میں شامل تھے مرحوم مولانا عبدالحمید نعمانی، مرحوم مولوی محمد عثمان،مولانا محفوظ الرحمن ، مرحوم مولانا مفتی قاری محمد حسین اشرفی، مولانا حنیف ملّی، مرحوم ہارون احمد انصاری، مرحوم شبیر سیٹھ اور مرحوم ساتھی نہال احمد وغیرہ، نے قلیدی کردار ادا کیا ہے۔ ان مذہبی، سماجی و سیاسی شخصیات نے شہر مالیگاؤں کو نہ صرف فرقہ پرستی کی آگ میں جھلسنے نہیں دیا بلکہ بدعنوانی کے خلاف رائے عامۂ کو بھی ہموار کیا تھا۔ لیکن گزشتہ 20 برسوں میں اقتدار کی لالچ میں اندھے نام نہاد سیاسی

قائدین نے شہر مالیگاؤں بالخصوص مشرقی حصے کو فرقہ پرستی اور بدعنوانی کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ جب سے ہمارے اسلاف کے نظریات کو طاق پہ رکھ کر اور شیوسینا اور دادا بھسے کیساتھ سانٹھ گانٹھ کرکے اقتدار حاصل کرنے کی نئی روایت کا آغاز ہوا ہے تب سے شہر مالیگاؤں کو فرقہ پرستی کی آگ میں جھونکنے کی کوششیں تیز ہوگئی ہیں- اسی کیساتھ شہر میں فرقہ پرستی کی ایک نئی شکل نےبھی جنم لیا ہے-

اس نئی قسم کی فرقہ پرستی کے چلتے اب شہر کے مشرقی حصے کی عوام کو تعمیر و ترقی اور بنیادی سہولیات سے محروم رکھا جاتا ہے۔ اس ناپاک منصوبے کو 2017 کارپوریشن الیکشن کے بعد مزید منظم طریقے سے لاگو کیا گیا۔ پانچ سال قبل کانگریس، جو آج کی راشٹروادی کانگریس ہے، نے شیوسینا سے ناپاک اتحاد کرکے اقتدار حاصل کیا- لیکن گزشتہ پانچ برسوں میں تعمیر و ترقی کے کام صرف آؤٹر حلقے میں ہوئے اور مشرقی حصے کے حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے۔ تعمیر و ترقی کے سلسلے میں شہر کے مشرقی اور مغربی حصے میں جو فرق ہے وہ آج عوام کے سامنے ہے-

فرقہ پرستی کے اس نئے چہرے نے شهر کے مشرقی حصے کو تعمیر و ترقی سے کسطرح محروم کرنے کی کوششیں کیں اسکا خلاصہ جنتادل سیکولر کی جانب سے کئی مواقع پر کیا گیا- ایک الرٹ اپوزیشن کا کردار بخوبی نبھاتے ہوئے اس سلسلے میں 16مئی کو پریس کانفرنس لیکر ہم نے اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ ریاستی حکومت سے مالیگاؤں شہر میں تعمیر و ترقی کے کاموں کے لیے جو 100 کروڑ روپئے منظور کئے گئے تھے، اسمیں سے سینٹرل حلقے میں صرف 7 کروڑ کا کام ہوگا، ایسا فیصلہ کارپوریشن پر قابض کانگریس (راشٹروادی کانگریس) اور شیوسینا نے کیا ہے۔ ہم نے مطالبہ کیا تھا کہ سینٹرل حلقے کی عوام سے کارپوریشن کو 70

فیصد ٹیکس حاصل ہوتا ہے اسلیے 100 کروڑ فنڈ میں سے 70 کروڑ کے کام سینٹرل حلقے میں کیے جائیں۔ کارپوریشن کی معیاد 15 جون کو ختم ہوئی۔ برسراقتدار کی نیت صاف ہوتی تو وہ خصوصی جنرل بورڈ میٹنگ لیکر فیصلے میں بدلاؤ کرسکتا تھا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا اور ایک بار پھر شہر کے مشرقی حصے کو تعمیراتی کاموں سے محروم رکھنے کا گھنونا کام کیا گیا۔ بے شرمی کی انتہا تو یہ ہیکہ جن افراد نے شیوسینا اور دادا بھسے کے ساتھ ملکر شہر کے مشرقی حصے کو تعمیراتی کاموں سے محروم کرنے کا کام کیا وہ آج اس پر اعتراض کررہے ہیں۔ لیکن عوام انکے گھڑیالی آنسووں کے جھانسے میں آنے والی نہیں ہے۔

ان افراد نے پانچ سال تک اقتدار کا مزہ لیا، دابھاڑی کو مالیگاؤں شہر کی ملکیت و حق کا پانی دینے کی مذموم شازش رچی اور عیدگاہ پر جاگنگ ٹریک کی تعمیر کی این او سی جاری کرنے جیسے غیر منصفانہ فیصلوں کے پیچھے کارفرما رہے۔لیکن جنتادل سیکولر نے بھی ایک مضبوط و موثر اپوزیشن کا کردار ادا کرتے ہوئے دابھاڑی کو پانی دینے کے فیصلے کی سخت مخالفت کی، غیر قانونی پائپ لائن بچھانے کا کام رکوایا اور شہر کے پانی کو محفوظ کرنے کا کام کیا۔ راشٹروادی اور شیوسینا کی مشرقی حصے کیساتھ کی جانے والی فرقہ پرستی اور بدعنوانی کو اجاگر کرتے

ہوئے جنتادل سیکولر نے ماضی میں بتایا تھا کہ برسراقتدار نے نئے طرز پر عوامی خزانے کو لوٹنے کے کام شروع کیا ہے۔ اس نئی طرز کی بدعنوانی میں کارپوریشن طئے شدہ بجٹ سے زائد رقم خرچ کرتی ہے۔ اس بدعنوانی کا نمونہ 30 نومبر 2021 کو پاس ہوئے ٹھراؤ میں بھی صاف نظر آتا ہے۔ اس ٹھراؤ میں تقریباً 100 کروڑ کے تعمیراتی کام کے لیے 10 کروڑ زاہد رقم ادا کرنے کی بات درج ہے۔ یہ خطیر رقم کارپوریشن کے خزانے سے ادا کی جائیگی۔ لیکن اسی کارپوریشن کو جس سینٹرل حلقے سے 70 فیصد ٹیکس حاصل ہوتا ہے اس حصے میں محض 8-7 کروڑ کے کام ہونگے۔ یہ ناانصافی نہیں تو اور کیا ہے؟

آج کی پریس کانفرنس میں ہم برسراقتدار و انتظامیہ کے ایک اور غلط فیصلے سے پردہ اٹھانا چاہتے ہیں۔کارپوریشن پر برسراقتدار افراد نے رام سیتو پل، موسم پل اور سانڈوے پل کی ازسرنو تعمیر کی تجویز کو منظوری دی ہے۔ اوّل تو یہ کہ سانڈوے پل ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔ اس پل سے شہریان کی یادیں وابستہ ہیں۔ اسکی ازسرنو تعمیر شہر کی تاریخی وراثت کوختم کرنے کے مترادف ہے۔ دوسری وجہ یہ کہ سانڈوے پل کا استعمال شہریان براہ نام ہی کرتے ہیں۔ اسکے باوجود سانڈوے پل کی تعمیر کا منصوبہ بنایا جارہا ہے- ہماری معلومات کے مطابق ایک شراب کے دوکاندار کے کہنے پر سانڈوے پل دوبارہ تعمیر کیا جارہا ہے۔

ہمارا موقف ہیکہ سانڈوے پل استعمال میں بہت زیادہ نہ ہونے کے باوجود اسکی ازسرنو تعمیر کی بات کی جارہی ہے۔ لیکن عبدالحمید نعمانی پل جس پر سے ہزاروں افراد روزانہ گزرتے ہیں، اسکی ازسرنو تعمیر نہیں کی جارہی ہے۔ عبدالحمید نعمانی پل پہلے بدعنوانی کا شکار ہوا تھا جب کارپوریشن سے زمین ملنے کے باوجود ٹھیکیدار نے کام نہیں کیا۔ اب یہ پل فرقہ پرستی کا شکار ہوگیا ہے۔ عبدالحمید نعمانی پل شہر کی ایک معزز شخصیت کے نام سے موسوم ہے۔ اس استعمال روزانہ قلعہ، بیلباغ، باغ محمود و اطراف کے سیکڑوں ساکنان کرتے ہیں۔ اسکے باوجود اسکی حالت انتہائی خستہ ہے۔ جنتادل سیکولر کا موقف ہیکہ سانڈوے پل کی بجائے عبدالحمید نعمانی پل کی ازسرنو تعمیر کی جائے۔ اگر اس عوامی رائے کو کارپوریشن نظرانداز کرتی ہے تو جنتادل سیکولر کی جانب سے جمہوری طرز پر عوامی احتجاج کیا جائیگا۔

ایک اور اہم بات یہ ہیکہ آج کل کچھ لوگ گھر پٹی میں اضافہ کے خلاف احتجاج کی بات کررہے ہیں۔ ہم عوام کو یہ بات یاد دلانا چاہتے ہیں کہ یہ وہی لوگ ہیں جنھوں نے اقتدار میں رہتے ہوئے گھر پٹی میں اضافے کی راہ ہموار کی اور آج گھڑیالی آنسو بہار ہے ہیں۔ 17 جنوری 2019 کو ٹھراؤ نمبر 283 اور 6 اکتوبر 2020 میں ٹھراؤ نمبر 418 کے زریعے انہی افراد نے گھر پٹی میں اضافے کے سلسلے میں سروے کو منظوری دی۔ اور آج عوام کو گمراہ کرکے اپنے گناہوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں۔ لیکن عوام انکی کرتوتوں سے واقف ہوچکی ہے۔

جب سے اقتدار کے لالچی لیڈران نے فرقہ پرست شیوسینا اور دادا بھسے سے ہاتھ ملاکر کارپوریشن پر قبضہ کرنے کی شروعات کی ہے تب سے فرقہ پرستی کے اس نئے چہرے نے مسلسل شہر کے مشرقی حصے کو تعمیراتی کاموں سے محروم کرنے کا مجرمانہ کام انجام دیا ہے۔دادا بھسے کی سیاسی زندگی فرقہ پرستی کی ناپاک بنیادوں پر قائم ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ انھوں نے اپنے حلقے کے مسلم اکثریتی علاقوں جیسے رمضان پورہ اور دیانہ کو بھی مسلسل نظرانداز کیا ہے۔وہ اس ریاستی حکومت کا حصہ ہیں جسکی بنیاد ہی ہندوتوا کے مدعے پر قائم ہے، اب ایسی حکومت اور ایسے لیڈر سے اقلیتی فرقے کی عوام کیا امید کرسکتی ہے۔

گزشتہ 20 برسوں میں اقتدار پانے والی پارٹیوں اور انکے لیڈران نے شیوسینا اور دادا بھسے کیساتھ ملکر شہر کے مشرقی حصے کو کھنڈر بنا دیا ہے۔ یہ پارٹیاں ہمیشہ دادا بھسے کی کٹھ پتلی بنیں رہیں۔ اسکا نتیجہ یہ رہا کہ شہر کا مغربی حصہ تو ڈیولپ ہوتا چلا گیا لیکن مشرقی حصہ بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہوگیا۔

یہ مرحوم مولانا عبدالحمید نعمانی، مرحوم مولوی محمد عثمان، مولانا حنیف ملّی جیسی نامور و معزز شخصیات کا شہر ہے۔ ان شخصیات نے شہر کو فرقہ پرستی اور بدعنوانی سے پاک رکھا تھا۔ انہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مرحوم ساتھی نہال احمد کی قیادت میں جنتادل سیکولر نے بھی فرقہ پرستوں کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کی اور شہر کی ترقی کے لیے کئی کارآمد اسکیموں کو لانے کا کام کیا۔ آج بھی جنتادل سیکولر ہمارے انہی اسلاف کی آئڈیولوجی پر عمل پیرا ہے۔ ہمیں یقین ہے عوام ان فرقہ پرست اور بدعنوان لیڈران کو بہت جلد گھر کا راستہ دکھائے گی۔

شان ہند نہال احمد
صدر جنتادل سیکولر
مالیگاؤں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے