اسلام کا قانون وراثت ہر کمی اور کمزوری سے پاک ہے

تفہیم شریعت کمیٹی کے آن لائن پروگرام سے مقررین کا خطاب

آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کی تفہیم شریعت کمیٹی کے زیر اہتمام بورڈ کے سوشل میڈیا ڈیسک کے ذریعے تفہیم شریعت کے سلسلے میں آن لائن خطبات و محاضرات کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے، جس کا مقصد اسلامی قوانین کی حکمتوں اور مصلحتوں سے مسلمانوں کو واقف کرانا اور اسلامی قوانین سے متعلق شکوک وشبہات اور پھیلائی جارہی غلط فہمیوں کا ازالہ کرنا ہے۔ مورخہ ۱۲؍نومبر بروز سنیچر رات میں آٹھ بجے ’’عورتوں کے حق میراث‘‘ کے موضوع پر ایک آن لائن پروگرام رکھا گیا جس کی صدارت بورڈ کے سکریٹری مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب نے فرمائی ۔

آغازمیں مولانا جمال عارف ندوی صاحب نے’’ اسلام میں عورتوں کا حق میراث اور عام غلط فہمیاں‘‘کے موضوع پر مدلل خطاب فرمایا ،انہوں نے کہا کہ اسلام کا قانون میراث عدل وانصاف پر مبنی ہے اور اس میں بہت ساری حکمتیں اور مصلحتیں پوشیدہ ہیں،بطور خاص اس میں عورتوں کے مفادات کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب میں کئی صدیوں تک عورتوں کو پورے طور پر حق میراث سے محروم رکھا گیا ،بعد میں اسلام کے نظام کو دیکھ کر بعض مذاہب نے جزوی طور پر عورتوں کو ان کا حق دینا شروع کیا ۔ آج یہ پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے کہ اسلام کے نظام میراث کے ذریعے عورتوں کی حق تلفی کی جارہی ہے اور دو بیٹیوں کے برابر ایک بیٹے کو حصہ دے کر بیٹیوں پر زیادتی کی جارہی ہے،حالانکہ بہت ساری صورتوں میں عورتوں کو مردوں کے برابر بلکہ بعض مرتبہ مردوں سے بڑھ کر میراث میں سے حصہ دیا جاتا ہے ۔

دو بیٹیوں کے برابر ایک بیٹے کو حصہ دینے کی وجہ بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ فرق جنس کی بنیاد پر نہیں بلکہ ذمہ داریوں کی بنیاد پر ہے۔اسلام میں بہن ،بیٹی ،بیوی اور ماں کے اوپر خود اپنے اخراجات کی بھی ذمہ داری نہیں رکھی گئی ہے ،بلکہ بھائی ،بیٹا ،شوہر اور باپ کے اوپر ان خواتین کی کفالت کا ذمہ عائد کیا گیا ہے،اس طرح عورتوں کو ملنے والی میراث ایک طرح سے محفوظ رہتی ہے جب کہ ذمہ داریوں کے سبب مردوں کا مال خرچ ہوجاتا ہے۔

اس لیے بعض صورتوں میں عورت کے مقابلے میں مرد کو دگنا حصہ دیا جاتا ہے ،اپنے تفصیلی خطاب کے اخیر میں موصوف نے بتایا کہ اس وقت عورتوں کے حق میراث کے سلسلے میں ایک رٹ پٹیشن سپریم کورٹ میں داخل ہے،جس پر آئندہ سماعت ہوسکتی ہے ،اس لیے مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسلامی قوانین بطور خاص میراث سے متعلق اسلامی نظام کا مطالعہ کریں تا کہ برادران وطن بطور خاص میڈیا اور عدالت کو تسلی بخش جواب دے سکیں۔


مولانا کے خطاب کے بعد محترمہ ڈاکٹر قدوسہ سلطانہ صاحبہ نے ’’اسلام اور دیگر قوانین میں عورتوں کا حق میراث‘‘کے موضوع پر اپنا علمی وتحقیقی محاضرہ پیش کیا۔انہوں نے مختلف مذاہب کی کتابوں کے حوالے سے بتایا کہ ہندو دھرم میں عورتوں کو میراث سے مکمل طور پر محروم رکھا جاتا تھا ،اسی طرح یہودی اور عیسائی مذاہب میں صرف مردوں کو میراث کا حقدار قرار دیا گیا تھا،اگر کسی خاتون کو میراث دی جاتی تھی تو نکاح ہوتے ہی وہ میراث شوہر کی ملکیت میں منتقل ہوجاتی تھی ،جب کہ اسلام میں عورتوں اور مردوں کو یکساں طور پر میراث کا حقدار قراردیا گیا ہے اور ان کو اپنے حصے کا مالک بنایا گیا ہے ۔انہوں نے تقسیم میراث کی مختلف شکلوں کے ذریعے یہ ثابت کیا کہ عورتیں مردوں کے برابر اور بعض صورتوں میں ان سے بڑھ کر حصہ پاتی ہیں ،اخیر میں انہوں نے کہا کہ آج جان بوجھ کر میراث کے اسلامی قانون کے بعض حصوں کو لے کر شکوک وشبہات پیدا کیے جارہے ہیں ،اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب کے قوانین کا تقابلی مطالعہ کریں تا کہ اعتراضات کا عقلی اور نقلی جواب دے سکیں۔


اخیر میں مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب نے صدارتی خطاب فرمایا ،انہوں نے کہا کہ قوانین شریعت بشمول قانون وراثت انداز ے کی بنیاد پر نہیں بلکہ علم وحکمت ، توازن اور اعتدال پر مبنی ہیں، یہ انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین نہیں ہیں بلکہ خالق کائنات نے انہیں مقرر کیا ہے اور وہ سب سے بڑھ کر علم و حکمت والا ہے،اسی لیے قوانین شریعت میں کسی طرح کی ناانصافی یا کمی کوتاہی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔انہوں نے بتایا کہ زمانہ جاہلیت میں تقسیم وراثت کے سلسلے میں جو زیادتی کی جاتی تھی اور عورتوں کو بالکل محروم رکھا جاتا تھا، اسلام نے قانون میراث کے ذریعے عورتوں کو ان کا حق دے کراس زیادتی کا خاتمہ کیا اور قرآن میں اللہ نے واضح طور پر کہا کہ جو اس قانون کی مخالفت کرے گا وہ دوزخ میں جائے گا ۔مولانا محترم نے اپنے خطاب میں مسلمانوں کو یہ نصیحت کی کہ وہ قانون میراث پر مکمل طور پرعمل کریں اور خواتین بطور خاص بہنوں کو ان کا حق دیں تا کہ ہماری کوتاہی اور بے عملی کی بنیاد پر شریعت اسلامیہ پر انگلی اٹھانے کا کسی کو موقع نہ ملے۔مولانا محترم کی دعا پر پروگرام کا اختتام ہوا ۔
اس پروگرام کو سوشل میڈیا ڈیسک کی جانب سے بورڈ کے آفیشیل یوٹیوب چینل پر نشر کیا گیا ،جس کو بڑی تعداد میں سامعین نے سنا ،صدارتی خطاب سے قبل سامعین اور ناظرین کی جانب سے پیش کیے گئے متعدد سوالات کے جوابات بھی مولانا جمال عارف ندوی صاحب نے دیئے۔حافظ حسان اشرف صاحب کی تلاوت اور مولوی ابرار صاحب کی نعت سے پروگرام کا آغاز ہوا ،مفتی محمد عامریاسین ملی نے تمہیدی گفتگو کی اور نظامت کے فرائض انجام دیئے۔ اس سلسلے کا اگلا پروگرام مورخہ۱۰؍دسمبر بروز سنیچر کو اسلام میں تعدد ازدواج کے موضوع پر منعقد ہوگا ان شاءاللہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے