عالم اسلام کے ممتاز عالم دین، کئی کتابوں کے مصنف شیخ علامہ یوسف القرضاوی کا انتقال، علمی حلقوں میں غم کی لہر

 عالم اسلام کے ممتاز عالم دین، کئی کتابوں کے مصنف اور مقبول عام شخصیت شیخ علامہ یوسف القرضاوی کا آج یعنی 26 ستمبر 2022 بروز پیر انتقال ہوگیا ہے۔ القرضاوی انٹرنیشنل یونین آف مسلم اسکالرز کے چیئرمین اور اخوان المسلمون کے روحانی پیشوا میں سے تھے۔ ان کی عمر 96 برس تھی۔پیر کو ان کے انتقال کا اعلان ان کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ پر کیا گیا۔ سال 2013 میں مصر کے پہلے جمہوری طور پر منتخب صدر محمد مرسی
کا تختہ الٹنے والی فوجی بغاوت کے خلاف انھوں نے سخت تنقید کی تھی۔ محمد مرسی کے صدر بننے سے پہلے اخوان المسلمون کے رکن تھے،

اور انہیں تحریک کی حمایت حاصل تھی۔مصر کے موجودہ صدر عبدالفتاح السیسی کی مخالفت کی وجہ سے محمد مرسی کی معزولی کے بعد شیخ القرضاوی پر مصر واپسی پر پابندی عائد کی گئی۔ مسلم دنیا کی سب سے بڑی اور مقبول اسلامی تنظیم اخوان المسلمون نے 2011 کے ’عرب بہار‘ میں اہم کردار ادا کیا تھا، جس کی وجہ سے سابق صدر مصر حسنی مبارک کا تختہ پلٹ کرنے میں بڑی مدد ملی، وہیں تجزیہ نگاروں کے مطابق شیخ قرضاوی نے بھی اہم رول ادا کیا تھا۔

انھوں نے اس دوران ظالم و جابر حکمرانوں کے خلاف بغاوت اور اسلامی نظام حکومت کا مطالبہ کیا تھا۔ حیدرآباد کے ایک عالم دین مولانا عمر عابدین نے لکھا کہ ’’امام یوسف القرضاوی اب نہیں رہے، إنا لله وإنا إليه راجعون۔ شیخ قرضاوی کو ہم نے عصر حاضر میں علم و فکر کا قبلہ و کعبہ سمجھا۔  وہ اس دور کے حقیقی معنوں میں مجتہد تھے۔ علم و عمل اور جہاد و شہادت کے آمیزے سے ان کا خمیر تیار ہوا تھا۔  ظاہر ہے ان کا متبادل تو دست یاب نہیں ہوسکتا ہے، ہاں مگر ان کے علم و فکر کے وارث پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں، جو انہیں ہمیشہ زندہ و تابندہ رکھیں گے‘‘۔ دہلی کے سماجی کارکن ابوالاعلیٰ سبحانی نے فیس بک پر لکھا کہ ’’علامہ قرضاوی اسلام اور اسلامی امت کی عظمت کا نشان تھے۔ علامہ قرضاوی کی زندگی صبر وعزیمت کی زندگی تھی۔

علامہ قرضاوی اخوان المسلمون کی ایسی شخصیت تھے جنہوں نے امام حسن البنا شہید سے لے کر آج تک پوری اخوانی تاریخ میں ایک سرگرم اور ایکٹیو رول نبھایا ہے، اسلامی علوم پر جتنی بھی جدید بحثیں ہیں وہ تمام بحثیں علامہ قرضاوی کے بغیر ادھوری رہ جاتی ہیں‘‘۔ ابوالاعلیٰ سبحانی نے لکھا کہ ’’عالم اسلام کی یہ واحد شخصیت تھی، جس کا ہر مسلک، ہر مکتب فکر اور ہر نظریہ کا حامل شخص دل وجان سے احترام کرتا تھا، قرضاوی نہیں رہے، سچ یہ ہے کہ اب بہت کچھ نہیں رہا۔ اللہ مغفرت فرمائے اور پوری امت کو صبر جمیل عطا کرے، علامہ کا جانا پوری امت کے لیے ایک صدمہ سے کم نہیں،اللہم ارحم یا ارحم الراحمین‘‘

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے