دیارِ ادیب مالیگاوں سیف نیوز ادبی پوسٹ

ماسٹر عفّان کُٹّی نے اپنے کارناموں سے ممبرا کا نام عالمی سطح پر روشن کیا
کبھی موبائل کی لت میں مبتلا تھا، آج اس کے پاس ہےلمکا بک آف ریکارڈ

اسپیشل اسٹوری :فرحان حنیف وارثی

ممبرا کے کالسیکر اسکول کی 12؍ ویں جماعت میں زیر تعلیم ماسٹر عفان کٹی دنیا اور ہندوستان کا پہلا بچہ ہے جو اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ کر روبک کیوب(Rubik Cube) سے انگریز ی کے’اے ‘ سے ’ زیڈ‘ تک 26؍حروف بناتا ہے۔وہ اس نوعیت کے اور بھی حیرت انگیز کارنامے منٹوں میں انجام دیتا ہے۔ مثلاً اس نے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ کرروبک کیوب سے نہ صرف ممبئی اردو نیوز لکھا بلکہ دوبئی کی مشہور عمارت برج خلیفہ ،ہندوستان کا نقشہ اور گیٹ وے آف انڈیا بھی بنا کر دکھایا ۔بعض افراد کو اسے دیکھ کر شک ہوتا ہوگا کہ اسے پٹی باندھنے کے باوجود نظر آتا ہوگا۔حالانکہ ایسا نہیں ہے۔اس شک کو دور کرنے کی خاطر وہ اپنی پیٹھ کے پیچھے روبک کیوب پکڑ کے اپنے فن کا مظاہرہ کرتا ہےجس سے دیکھنے والے مطمئن ہو جاتے ہیں۔


نشیمن کالونی میں رہنے والا ماسٹر عرفان کٹی کی پیدائش 10؍اگست 2005کو ہوئی ہے۔سینٹ میری کانوینٹ ہائی اسکول سے ایس ایس سی میں کامیابی حاصل کرنے والایہ طالب علم 2019کے اوائل تک موبائل فون اور سوشل میڈیا کا عادی تھاجس کی وجہ سے وہ صحت کے مسائل کا شکار ہوگیا اور حد تو یہ ہے کہ اسے عینک لگانا پڑ گئی ۔اس کے ڈاکٹر نے بھی اسے اپنی لت کا علاج کرنے کی تاکید کی ۔وہ بتاتا ہے:’ مجھے ڈاکٹر نے موبائل سے فاصلہ بنانے کامشورہ دیا جسے میں نے ایک چیلنج کے طور پر قبول کیا ۔دنیا کی کوئی بھی لت ہو ،اس سے چھٹکارہ پایا جا سکتا ہے ،بس قوت ارادی کی ضرورت ہے ۔میں نےسوچ لیا تھا کہ مجھے اس لت سے باہر نکلنا ہے۔اس دوران میرے اہل خانہ نے مجھے روبک کیوب سے متعارف کیا۔‘


اس نے بتایا :’ پب جی میرا من پسند کھیل تھا۔اور بھی کھیل میں کھیلا کرتا تھا۔میں بتادوں کہ ان سبھی کھیلوں کےنقصانات ہیں اور مجھے بھی ان کا سامنا کرنا پڑا ۔صحت کے ساتھ پڑھائی متاثر ہوئی ۔میں نے روبک کیوب کی مشق شروع کی اور صرف ایک ماہ میں اچھی خاصی گرفت حاصل کرلی ۔اہل خانہ نے اس دوران میرا ٹیسٹ لیا تو میں نےانھیں روبک کیوب کےکئی معمےحل کرکے دکھائے، جس کے بعد انھوں نے مجھے بارہ روبک کیوب اور خرید کر دیئے ۔گزشتہ چار برسوں سے میں روزانہ تین چار گھنٹے مشق کرتا ہوںجس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا ہے کہ میری رفتار تیز ہوگئی ہے ۔اگر کسی سبب دو تین دن مشق نہیں کرسکا تو پھر دشواری پیش آتی ہے۔مجھے روبک کیوب نے ان لوگوں سے ملوایا جن سے ملنے کے لیے لوگ ترستے ہیں ۔‘


ماسٹر عفان کٹی کے پاس اس وقت لگ بھگ دس لاکھ روپے کے روبک کیوب جمع ہیں ، اور اسے تقریبا ً اتنی ہی رقم کے مزید روبک کیوب کی ضرورت ہے۔اسے مسلم بچوں اور نوجوانوں کو موبائل کی لت میں مبتلا دیکھ کر دلی تکلیف ہوتی ہے ۔اس نے موبائل کی لت کے شکار بچوں اور نوجوانوں کو مشورہ دیتے ہوئے کہا :’آج بیشتر بچوں اور نوجوانوں کے پاس زندگی کا کوئی مقصد اور کوئی خواب نہیں ہے ۔انھیں یہ پتہ نہیں ہے کہ صبح اٹھ کر کیاکرنا ہے ۔مسلم نوجوان رات دو تین بجے تک جاگتے ہیں اور دن میں دیر تک سوتے ہیں ۔میرا یہی پیغام ہے کہ موبائل پر اپنا وقت ضائع کرنے کی بجائے پڑھائی اور زندگی کو سنوارنے میں وقت کا استعمال کریں ۔میں یہ نہیں کہتا کہ مستی اور شررات چھوڑ دو ،یا موبائل چھوڑ دو ۔میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمیشہ موبائل میں ڈوبے رہنا چھوڑ دو ، ورنہ زندگی میں دوسروں سے پیچھے رہ جاؤ گے۔یہ وہ عمر ہے جس میں اپنے مستقبل کی پلاننگ بے حد ضروری ہے ۔بہتر مستقبل سے آپ کی ، اور آپ کے آس پاس کے لوگوں کی زندگی سنور جائے گی ۔‘


عرفان کے والد رفیق کٹی کا کہنا ہے کہ ماسٹر عفان کٹی کو یکسوئی پر مکمل دسترس حاصل ہے اور وہ کسی ایسی چیز پر انتھک محنت کرتا ہے جو اسے پسند آجائے ۔آ ج وہ 13×13,7×7,3×3سائزکے روبک کیوب کو پلک جھپکتے ہی حل کردیتا ہے۔اس کی توجہ نے اسے زبردست یکسوئی اور مہارت بخشی ہے جس کی مدد سے وہ آنکھ پر پٹی باندھ کر اور بغیر پٹی باندھے روبک کیوب کو حل کرنا شروع کر دیتا ہے۔اس کی لگن اور توجہ اسے روبک کیوب پر متعدد زبانوں کے خطوط بنانے کی طرف لے جاتی ہے جس سے اسے دنیا بھر سے تعریفیں اور اعزازات ملتے ہیں۔وہ ایک تخلیقی ذہن رکھنے والا مستقل مزاج بچہ ہے۔


ماسٹر عفان کٹی کو اہل خانہ کا بھرپور تعاون ملا۔ان کے والد رفیق کٹی نے اپنے بیٹے کی تربیت اور کیریئربنانے میں پوری توجہ دی اور اس بچے نے سخت محنت سے عالمی سطح پر اپنی ایک الگ پہچان قائم کی ۔ایشیا ء بُک آف ریکارڈ میں اس کا نام تین مرتبہ ، انڈیا بُک آف ریکارڈ میں دو مرتبہ اور لمکا بُک آف ریکارڈ میں دو مرتبہ شامل ہوچکاہے۔اعزازی اسناد کا تو کوئی شمار ہی نہیں ہے۔ماسٹر عفان کٹی کے نام ایک اچیومنٹ یہ بھی درج ہے کہ سی بی ایس سی بورڈ کی پہلی جماعت سے نویں جماعت تک کی جنرل نالج کی ٹیکسٹ بُک میں ایک صفحے پر اس کا
تعارف اور کارناموں کو پیش کیا گیا ہے۔انڈیا گوٹ چیلنج میں بھی اسے مدعو کیا گیا اور اس کا شو ریکارڈ کیا گیا ، مگر نہ جانے کیوں ٹیلی کاسٹ نہیںکیا گیا ۔ممکن ہے کہ ٹی آر پی کا مسئلہ ہو۔ماسٹر عفان کٹی کی ایک کامیابی یہ بھی ہے کہ


اس نے اپنی عفان کیوب اکیڈمی شروع کی ہے ۔اسے لمکا بُک آف ریکارڈ کی دوسری سرٹیفِکیٹ دو روز پہلے موصول ہوئی ۔ماسٹر عرفان کٹی ان فرقہ پرستوں اور متعصب میڈیا کے لیے ایک مثال ہے جو مسلم بستی ہونے کی وجہ سےسرزمین ممبرا کو بدنام کرنے کا کوئی موقع چھوڑتے نہیں ہیں۔
__🔴🔴

افسانہ
شریف لوگ
ہارون اخترمالیگاؤں ،
٭٭٭٭٭٭٭
اصلاح نگر خلوص ، وفا ، ہمدردی ، انسانیت اور شرافت کا گہوارہ ہے – میں وہاں کے ہر فرد کو اچھی طرح جانتا ہوں – وہاں کے رہنے والے افراد غریب ، مجبور ، بےبس اور بے سہارا لوگوں کی امداد دل و جان سے کیا کرتے ہیں –
میں بھی اسی بستی میں رہتا ہوں – ایک بات جو مجھے ہمیشہ مضطرب رکھتی ہے کہ شریفوں کی اس بستی میں رضیہ جیسی فاحشہ …. محلے کے نام پر بدنما داغ …. شرافت کے نام پر کلنک … کہتے ہیں نا ” تالاب کی ایک گندی مچھلی پورے تالاب کو گندا کر دیتی ہے – محلے کے سبھی لڑکے ، لڑکیوں ، عورتوں اور مردوں کو جب اس سے بے تکلفی سے باتیں کرتے دیکھتا ہوں تو میری شرافت مجھے بے چین کر دیتی ہے – اور میں سوچنے لگتا ہوں ” ان شریفوں کی شرافت کہاں مر گئی ؟ کیا ان کی شرافت کو دیمک چاٹ گئے ہیں ؟ کیا ان کی آنکھوں کی حیاء مر چکی ہے؟ اس گندگی کو محلے سے باہر نکال دینا چاہیے”


میں ایک افسانہ نگار ہوں – حالات حاضرہ کی عکاسی میرا مشغلہ ہے – میں اپنے کسی افسانے میں ان شریف لوگوں کے سوئے ہوئے ضمیر کو جھنجھوڑ کے رکھ دوں گا – اور لوگ اس غلاظت کو محلے سے نکالنے پر مجبور ہوں گے –
موسم بہت ہی خوشگوار تھا – ہلکی ہلکی بوندا باندی ہو رہی تھی اور میں اپنے گھر کی بالکنی پر گرم چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے سوچ رہا تھا – آج میں اپنا زیر تکمیل افسانہ ” ادھورا سپنا ” مکمل کر لوں گا – تبھی محلے کا ایک لڑکا جس کی عمر بارہ سال رہی ہوگی – دوڑتا ہوا آیا اور کہا _ ” آپ کو رضیہ بلا رہی ہے – ”


میرا وجود لرز گیا – ایک عجیب سا اضطراب میری رگ و پئے میں سما گیا تھا – کیونکہ گلی میں رضیہ نام کی اور کوئی لڑکی نہیں تھی – نہ چاہتے ہوئے بھی میرے قدم اس کے گھر کی سمت اٹھ گئے –
میں جیسے ہی گھر میں داخل ہوا اس نے بہت ہی ناز و ادا سے دوپٹے کو سر پر رکھ لیا اور پھر بہت ہی ادب و احترام سے اپنے لبوں کو حرکت دی _ ” آئیے اختر صاحب ! تشریف رکھئیے – "
اس نے کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا –
میں کرسی پر بیٹھتے ہی سوچنے لگا – ” ادائیں تو طوائفوں اور جسم فروشوں کا پیشہ ہے "
اور پھر میری بھٹکتی نگاہ گھر کے وجود کا جائزہ لینے لگی – آیت الکرسی ، سورہ یاسین ، سورہ رحمن ، مکہ اور مدینہ کا خوبصورت دلکش فریم دیوار پر لگا ہوا تھا – سامنے کے طاق میں جائے نماز اور کلام پاک رکھا ہوا تھا – گھر کی ہر چیز سلیقے سے رکھی ہوئی تھی – میری نگاہ گھر کے اندر بھٹک ہی رہی تھی کہ وہ چائے لے کر آ گئ –
میں نے احتجاج کیا _ ” میں ابھی ہی چائے………. "
اس نے میری بات کاٹ دی اور کہا _ ” بادل جب رم جھم برستا ہے تو چائے بہت ہی پیاری لگتی ہے – "
چائے کی پیالی لیتے وقت میں نے اس کی انگلیوں کا لمس محسوس کیا – میرے خاموش سے وجود میں بجلی سی دوڑ گئی – میں نے پہلی مرتبہ اس سے نظریں ملائیں – اس کی غزالی آنکھیں ایک ٹک مجھے دیکھے جا رہی تھیں – میں نے نظریں جھکا لیں – چائے پینے تک ہمارے درمیان خاموشی طاری رہی – میں نے خاموشی کو توڑتے ہوئے پوچھا ” تم نے مجھے کیوں بلایا ہے ؟ "
"میں تمھیں پسند کرتی ہوں ” اس نے معنی خیز ہلکی سی مسکان کے ساتھ کہا –
اور میں چونک گیا –
” کیا کہا تم نے؟ "………
وہ کھلکھلا کر ہنسی –
” میں نے آپ کے بہت سے افسانے پڑھے ہیں – آپ بہت اچھا لکھتے ہیں – "
” کیا تم پڑھنا بھی جانتی ہو ؟ "
” ہاں میں نے بی اے کیا ہے – افسانوں کا مطالعہ کبھی میرا مشغلہ تھا – کرشن ، منٹو ، عصمت ، قرۃالعین ان تمام کے افسانے میں نے پڑھے ہیں – آپ کا افسانہ ” تھوڑا زیادہ ” پڑھنے کے بعد معلوم ہوا کہ آپ کے اندر بھی ایک منٹو ہے – جسے آپ اب تک کاغذ پر نہیں اتار سکے – میں آپ کو ایک ویشیا کی داستان سنانا چاہتی ہوں – جسے سن کر آپ کو ” کالی شلوار ” کی مجبور بےبس سلطانہ یاد آ جائے گی – "
گستاخی معاف ! میں نے تو سنا ہے دن کے اجالے میں اور رات کی تاریکی میں شہر سے دور ندی کے اس پار جہاں جسم فروشی کا دھندہ ہوتا ہے تم بھی وہاں پر………………. میں نے جان بوجھ کر جملہ ادھورا چھوڑ دیا –
اس کی آنکھیں نم ہو گئیں – جیسے میں نے سنسناتا ہوا تیز خنجر اس کے سینے میں اتار دیا ہے – اس نے اپنے آنچل میں اشکوں کے موتی جذب کر لئے –


میں نے کہا ” تمھیں اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ یہ شریفوں کی بستی ہے – ” میری بات پر وہ پھر ہنسی ” ہا… ہا… ہا ” ہنستے ہنستے زہریلی مسکراہٹ کے ساتھ اس نے طنزیہ کہا ” شریف لوگ ؟ سالے حرامی……. اختر صاحب آج میں تمہیں ان کی شرافت بتاتی ہوں – کوئی بھی لڑکی پیدائشی ویشیا نہیں ہوتی – وقت اور حالات کی چکی میں انسان جب پستا ہے تو بے دام بکتا بھی ہے – کہتے ہیں ” پیٹ کی آگ جہنم کی آگ سے تیز ہوتی ہے ” میرے مجازی خدا کی موت کے بعد محلے کے شریف لوگوں نے کچھ دن تک مجھ سے ہمدردی جتائی – دو وقت کی روٹی کی تلاش میں مجھے گھر سے باہر نکلنا پڑا – میں کام کی تلاش میں در بدر کی ٹھوکریں کھاتی رہی – ایسا نہیں کہ مجھے کام نہیں مل رہا تھا – کام تو بہت تھا مگر لوگوں کی ہوس بھری نظریں کپڑوں کے اندر چھپے جسم پر اس طرح رینگتی تھیں جیسے غلاظت کے ڈھیر پر کیڑے رینگتے ہیں – ہوس بھری نظروں سے بچتے بچتے ایک دن پیٹ کی آگ کی خاطر اپنی آبرو کا سودا کر بیٹھی – اور پھر اسی دن سے گناہ کے دلدل میں پھنستی چلی گئی – کچھ شریف لوگ دن کے اجالے میں اور کچھ لوگ رات کی تاریکی میں میرے جسم کو ناچتے رہے – ایک بات اور ! شریفوں کی بستی میں کوئی ویشیا نہیں رہتی – ایسا بھی نہیں اس بستی میں شرافت نہیں رہی – تمھارے جیسے کچھ لوگ ہیں جن کے دم سے شرافت زندہ ہے –


ایک روز سماج کے ٹھیکیدار اور ان کے انٹر پنٹر کے دل میں یہ بات آئی کہ رضیہ عرف رجنی کو محلے سے باہر نکال دیا جائے – مجھے شہر بدر کرنے کے لیے ایک میٹنگ بلائ گئی اور ساتھ ہی مجھے بھی –
میٹنگ میں بستی کے بہت سے افراد جمع تھے جن میں سماج کے ٹھیکیدار عزت دار اور ان کے حواری مواری موجود تھے – شرافت پر لمبی چوڑی تقریریں ہوئیں – تبھی ایک شخص نے کہا – اب وقت آگیا ہے کہ شریفوں کی اس بستی سے گندگی کو صاف کیا جائے……… "
” تو کیا تمھیں بستی سے نکال دیا گیا؟ ” میں نے پوچھا –
یہ سالے حرامی لوگ مجھے کیا نکالتے بستی سے … کہتے ہیں نا رنڈی سے الجھنا اور چھچھوندر کے منہ پر چمّا لینا دونوں برابر ہے – پھر میں نے اس کتے سے کہا جو کچھ دیر پہلے بھوکا تھا – کیوں رے بھڑوے ! گزشتہ رات اپنے اندر کی غلاظت مجھ میں انڈیلتے وقت شرافت کا خیال کیوں نہیں آیا؟ اگر غلاظت صاف کرنے کا اتنا ہی شوق ہے تو تم میں سے وہی شخص میرا ہاتھ پکڑ کر بستی سے نکال دے جس نے اپنے اندر کی غلاظت مجھ میں منتقل نہ کی ہو – اتنا سنتے ہی سبھی لوگوں کے سر شرم سے جھک گئے – "
اور میں سر اٹھائے اسے دیکھتا رہا – کیونکہ اس وقت رضیہ نے شریفوں کے چہرے سے شرافت کا خول اتار پھینکا تھا –


آج کی تازہ غزل

جو بھی تیرا حبیب لگتا ہے
مجھ کو میرا رقیب لگتا ہے

جو کہ ہے دور ایک مدت سے
وہ ہی سب سے قریب لگتا ہے

سب کو ہم یوں ہی مل نہیں جاتے
اس کی خاطر نصیب لگتا ہے

جس کو دیکھے سے دل بہل جائے
سب سے بہتر طبیب لگتا ہے

دل پذیری ہو جس کی باتوں میں
وہ ہی اچھا خطیب لگتا ہے

ہم چلے آتے بن بلائے بھی
ہاں مگر کچھ عجیب لگتا ہے

کرلے ماں باپ سے کنارا جو
مجھ کو سب سے غریب لگتا ہے

کون ہے یہ شکیل کیسا ہے
کوئی شاعر ادیب لگتا ہے

(شکیل حنیف)

بحر خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
( فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن )

Shakeel Haneef,
Malegaon (India)
+918087003917


جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے