دیارِ ادیب مالیگاوں سیف نیوز ادبی پوسٹ

مالیگاؤں کے فاطمہ شیخ اورعثمان شیخ
تکلف برطرف : سعید حمید
۹؍ جنوری ۲۰۲۲ ء گوگل (GOOGLE )
نے ایک ڈوڈل(DOODLE) بنایا ،
اور فاطمہ شیخ کو عام کردیا، فاطمہ شیخ کا نام کردیا ۔
گوگل نے آخر کیوں فاطمہ شیخ کی خدمات کا اعتراف کرنے کیلئے
انہیں یہ اعزاز دیا ؟
کیونکہ فاطمہ شیخ کو بھارت کی پہلی خاتون مسلم معلمہ سمجھا جاتا ہے ۔
لیکن ،جس طرح مسلم سماج نے سر سیدّکی خدمات کا اعتراف کیا ،
فاطمہ شیخ کے بارے میں بھارت کے عوام تو کیا ،
بھارت کے مسلمان بھی بہت کم جانتے ہیں۔
فاطمہ شیخ اور ان کے بڑے بھائی عثمان شیخ نے اس زمانہ میں
جب پونے میں جو پیشوا راج یعنی برہمن راج کا مرکز تھا ،
مہاتما پھلے اور ان کی شریک حیات ساوتری بائی پھلے کا ساتھ دیا ۔
مہاتما جوتی با پھلے اور ان کی شریک حیات ساوتری بائی پھلے
کٹر وادی اعلی طبقہ کےمنووادی دقیانوسی نظریات
کے خلاف جنگ کر رہے تھے ،
عورتوں کو تعلیم سے آراستہ کرنا چاہتے تھے ،
سماج کے کمزور طبقہ کی زندگی سے تعلیم کے چراغ جلا کر
جہالت کا اندھیرا دور کرنا چاہتے تھے ،
لیکن کٹر وادی ، منو وادی طبقہ جس عقیدہ تھا کہ عورت اور اچھوت
کا تعلیم حاصل کرنا پاپ ہے ، گناہ ہے ،


ان کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کر رہا تھا ۔
تب مہاتما پھلے اور ان کی شریک حیات ساوتری بائی پھلے
کی حمایت میں بہادری کے ساتھ کئی مسلمان آگے آئے ۔
ان میں منشی عبدلغفار کا نام نمایا ں ہے ،
البتہ سب سے زیادہ پیش پیش عثمان شیخ اور فاطمہ شیخ تھے ۔
افسوس کہ عثمان شیخ اور فاطمہ شیخ کے بارے میں بہت کم مواد مہیا ہے ،
جبکہ مہاتما پھلے کی تحریک میں ان کی قربانیوں کا حصہ بہت زیادہ ہے ۔
اسلئے جب فاطمہ شیخ کے نام کی گوگل کیوجہ سے پوری دنیا میں چرچا ہوئی
پھر بھی ان کے متعلق بہت زیادہ مواد حاصل نہیں ہوا۔
البتہ مراٹھی کے ایک ناول نگار دنکر وشنو کاکڑے نے عثمان شیخ
اور فاطمہ شیخ کے متعلق دستیاب قلیل مواد کو ناول میں ڈھال دیا ۔
اس کا اردو ترجمہ عبداللہ عبدالکریم نے کیا اورایک سبکدوش ریلوے پولس
افسر سمیع اللہ عبدلغفار خان نےاس اردو کتاب کو شایع کیا ۔
ریلوے پولس کمشنر جناب قیصر خالد ( آئی پی ایس ) کے ہاتھوں اس کتاب کا اجرا ٔہوا ۔
اس ناول سے یہ پتہ چلتا ہے کہ عثمان شیخ اور فاطمہ شیخ کا تعلق مالیگاؤں سے ہے ،
اور وہ بنکر برادری سے تعلق رکھتے تھے ۔
اس ناول کی روشنی میں پھلے اور شیخ خاندان کی جدوجہد اور
قربانی کی داستان یوں بیان کی جا سکتی ہے ؛
صدیوں سے جس سماج کو جہالت کے اندھیروں میں غرق رکھا گیا ،
اسے علم کی روشنی سے روشناس کرنے کی جدوجہد انقلابی
رہنما مہاتما جوتی با پھلے اور ان کی شریک حیات ساوتری بائی پھلے
نے بڑی ہمتّ اور محنت سے کی تھی ۔
تعلیم کو عام کرنے کی انکی اس مہم میں قربانی کے عظیم جذبہ
کے ساتھ تعاون کرنے والوں میںبھارت
کی پہلی مسلم خاتون معلمہّ فاطمہ شیخ
اور ان کے بڑے بھائی عثمان شیخ کا نام بہت نمایاں ہے۔
فاطمہ شیخ اور عثمان شیخ کابنیادی تعلق مالیگاؤں کی بنکر برادری سے ہے ۔
دونوں چھوٹی عمر میں ہی یتیم ہوگئے ، اس دوران مالیگاؤں میں بھیانک قحط پڑا۔
کئی بنکر خاندان پونے منتقل ہو گئے ۔ا
س قافلہ میں عثمان شیخ اور فاطمہ شیخ بھی شامل ہو کر پونے آگئے
جہاں ایک مشفق شخصیت منشی عبدالغفار بیگ نے دونوں یتیم بچوں کو سہارا دیا ۔
انہوں نے عثمان شیخ کو ایک مقامی اسکول میں بھی داخل کروادیا جہاں
جوتی راؤ پھلے ان کے ہم جماعت بن گئے ۔
یہاں سے پھلے اور شیخ خاندان کے دیرینہ تعلقات کا بھی سلسلہ شروع ہوا۔
مہاتما پھلے نے اپنی شریک حیات ساوتری بائی پھلےکو گھر میں ہی پڑھایا
اور دونوں نے تعلیم ِنسواں، تعلیم ِبالغان کا کام شروع کردیا ۔
ان سرگرمیوں کی وجہ سے انہیں کٹر وادیوں کی جارحانہ مخالفت کا نشانہ بھی بننا پڑا ،
جن کے دباؤ میں آکر جوتی با پھلے کے والد نے
اپنے بیٹے اور بہو کو مجبوراًگھر سے نکال دیا۔
ایسے موقعہ پر عثمان شیخ نے مہاتما پھلے اور ساوتری بائی پھلے
کی تن من دھن سے مدد کی ، انہیں اپنے گھر میں پناہ دی ۔
تعلیمِ بالغان ، تعلیم ِنسواں ، ٹیچرس ٹریننگ اسکول ،
بیوہ عورتوں کے آشرم کیلئے اپنے باڑے میں جگہ فراہم کی،
اور تعلیم کو عام کرنے کی مہم میں سرگرم ہوگئے ۔
فاطمہ شیخ پڑھی لکھی نہیں تھیں ، لیکن انہیںتعلیم حاصل کرنے کا بڑا شوق تھا ۔


ساوتری بائی پھلے ان کیلئے رول ماڈل تھیں ،
انہوں نے ساوتری بائی پھلے سے تعلیم حاصل کی
جن کی تعلیم بالغان اسکول میں پہلی ٹیچر ساوتری بائی پھلے
اور پہلی طالبہ فاطمہ شیخ تھیں ۔پھرفاطمہ شیخ نے ٹیچرس ٹریننگ کورس مکمل کیا
اور ایک تربیت یافتہ ٹیچر بنکر مہاتما جوتی با پھلے ، ساوتری بائی پھلے ،
منشی عبدلغفار بیگ ، عثمان شیخ ، والویکر ، گونڈے ، تاتیا صاحب بھڑے ،
لہو جی استاد وغیرہ کے ساتھ تعلیم کو عام کرنے میں ہاتھ بٹایا ، ا
ور مہاتما پھلے و ساوتری بائی پھلے کے قائم کردہ گرلز اسکول ،
تعلیم بالغان اسکول ، ٹیچرس ٹریننگ اسکول ،
بیواؤں کے آشرم وغیر ہ کے اہتمام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگیں۔
۱۸۵۶ ء میں ساوتری بائی پھلے عارضی طور پر اپنے گاؤں ضلع ستارا گئیں
تو فاطمہ شیخ کو اپنی اسکول کی عارضی ہیڈ مسٹریس بنایا
لیکن ان کی شاندار کارکردگی دیکھ کر انہیں مستقل ہیڈ مسٹریس بنادیا گیا ۔
ایک ایسے دور میں جبکہ کٹر وادی عناصر تعلیم ِنسواں کو پاپ یا گناہ سمجھتے تھے ،
پھلے اور شیخ خاندان نے علم کی شمع جلانے کیلئے جارحانہ مخالفت کا
عظم و استقلال کے ساتھ مقابلہ کیا ،
لیکن تعلیمِ بالغان و تعلیمِ نسواں کی اپنی مہم ترک نہیں کی ۔
مہاتما پھلے ، ساوتری بائی پھلے ، فاطمہ شیخ ، عثمان شیخ وغیرہ نے
اس غیر موافق دور میں جو زمین تیار کی تھی ،
اس کی وجہ سے آزادی سے قبل اور بعد میں
بھارت کی کئی خواتین نے اعلی تعلیم حاصل کرکے
کامیابی و شہرت کے آسمان کو چھولیا ۔
_

افسانہ

یہ دھواں سا

سلام بن رزاق ۔الوے نیو ممبئی، انڈیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب اس کی آنکھ کھلی تو فجر کی اذان ہورہی تھی۔ وہ اٹھ بیٹھا۔ بغل میں بیوی بے خبر سورہی تھی بلکہ ہلکے ہلکے خراٹے بھی لے رہی تھی۔ وہ مسکرایا، بیوی اکثر اس کے خرّاٹوں کا ذکر کیا کرتی ہے مگر اب وہ خود خرّاٹے لے رہی تھی اور اپنے خرّاٹوں سے بے خبر تھی۔ یہ خرّاٹے بھی عجیب چیز ہیں۔ خرّاٹے لینے والاتو گہری نیند کے مزے لے رہا ہوتا ہے اور اسے پتا بھی نہیں چلتا کہ وہ دوسروں کو کس قدر ڈسٹرب کررہا ہے۔ وہ پلنگ سے اُترا واش روم سے فارغ ہوا۔ وضو کیا اور الماری سے مصلّٰی نکال کر فجر کی نماز ادا کی۔ مصلّٰی لپیٹ کر دوبارہ الماری میں رکھ دیا۔ بیوی اسی طرح خرّاٹے لے رہی تھی۔ وہ اپنے بیڈروم سے باہر نکلا۔ پورا گھر سنّاٹے میں ڈوبا ہوا تھا۔ بیٹے بہو کے کمرے کی طرف دیکھا۔ دروازہ بند تھا۔ بہو عموماً اس وقت اُٹھ جاتی تھی۔ شاید آج اس کی بھی آنکھ لگ گئی تھی۔ اس کے لیے سیر پر جانے سے پہلے صبح کی چائے بہو ہی بناتی تھی۔ بیوی گٹھیا کی پرانی مریضہ تھی عرصہ ہوا اس نے اسے صبح جگانا چھوڑ دیا تھا۔

اس نے سوچا خود ہی ایک کپ چائے بنالے مگر برتنوں کی کھٹر پٹر سے خواہ مخواہ سب کے آرام میں خلل پڑنے کے خیال سے ارادہ ترک کردیا۔ سوچا آج باہر ہی کسی ٹپری پر چائے پی لے گا۔ شال کاندھے پر ڈالی، جوتے پہنے اور آہستگی سے دروازہ کھول کر باہر نکل آیا۔سپیدۂ صبح نمودار ہوچکی تھی۔ آسمان کا رنگ ہلکا پڑگیا تھا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی فرحت بخش ہوا چل رہی تھی۔ سڑک سنسان تھی، سڑک کے کنارے درختوں پر چڑیاں چہچہانے لگی تھیں۔ ایک طرف دو کتّے خوش فغلیوں میں مصروف تھے۔ اس کے قدم جو گرس پارک کی طرف اٹھ رہے تھے۔ وہ آج اپنے آپ کونسبتاً بہت ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا۔ عموماً صبح اُٹھنے کے بعد تھوڑی دیر تک جو کسلمندی کا احساس ہوتا تھا وہ آج ندارد تھا، گٹھیا کی شکایت تو اسے بھی تھی مگر روزانہ صبح کی سیر سے کافی افاقہ تھا، ایک زمانے میں وہ فٹ بال کا اچھا کھلاڑی تھا۔ ریاستی سطح پر اس نے کئی میچوں میں حصہ لیا تھا اور کئی میڈل بھی جیتے تھے مگر آگے چل کر گھریلو ذمہ داریوں اور بڑھتی عمر کے ساتھ دھیرے دھیرے فٹ بال کا شوق ماند پڑتا چلا گیا۔ تِس پر گٹھیا کے مرض نے تو بالکل لاچار کردیا۔ اب فٹ بال صرف اس کی یادوں میں زندہ تھا۔ آج بھی کہیں فٹ بال کا میچ ہورہا ہو تو وہ بڑے شوق سے دیکھنے جاتا ہے۔ ٹی وی پر تو روزانہ وہ اسپورٹس چینل پر صرف فٹ بال کا میچ ہی دیکھتا ہے۔ فٹ بال کے خیال کے ساتھ اس کی ایک سنہری یاد بھی جڑی ہوئی تھی۔

پونے میں ریاست کا فائنل میچ تھا۔ مقابل ٹیم برابر کی ٹکّر دے رہی تھی۔ دونوں کے چار چار گول ہوچکے تھے۔ آخری پانچ منٹ باقی تھے۔ دونوں ٹیم کہ کھلاڑی جان کی بازی لگائے ہوئے تھے۔ وہ بھی پورے فارم میں تھا۔ ٹیم کے چار گول میں سے دو گول اس نے بنائے تھے۔ گیند دھیرے دھیرے مقابل ٹیم کے گول پوسٹ کی طرف بڑھ رہی تھی۔ میدان میں تماشائیوں نے آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا۔ اس نے دیکھا کہ اس کی ٹیم کا ایک کھلاڑی ڈربلنگ Dribbling کرتا ہوا اس کی طرف آرہا ہے۔ وہ چوکنّا ہوگیا کھلاڑی نے گیند اسے پاس کی وہ نیٹ کے قریب تھا۔ جوں ہی گیند آئی اس نے سرعت سے کک لگائی۔ گیند گول کیپر کے سر پر سے ہوتی ہوئی سیدھے گول پوسٹ کے اندر چلی گئی۔ آخری گول ہوگیا۔ ان کی ٹیم جیت گئی۔ میدان خوشی کے نعروں سے گونجنے لگا، ساتھی کھلاڑی اس پر ٹوٹ پڑے وہ ان کی گرفت سے نکل کر پویلین کی طرف دوڑنے لگا۔ اتنے میں اس نے دیکھا کہ تماشائیوں میں ایک سیاہ فام لڑکی بیریئر پھلانگ کر دوڑتی ہوئی اس کی طرف آرہی ہے۔ اس نے پیلے رنگ کی شارٹ اسکرٹ پہن رکھی تھی۔ اس کی نصف سے زیادہ چمکدار رانیں دعوتِ نظارہ دے رہی تھیں۔ وہ غالباً افریقہ کے کسی علاقے کی باشندہ معلوم ہوتی تھی۔ اس کے سر پر سیاہ گھنگرویالے بالوں کو دیکھ کر شہد کے بڑے سے چھتّے کا گمان ہوتا تھا۔ وہ سیدھے اس کی پاس آئی اور گلے میں بانہیں ڈال کر اپنے گرم گرم گداز ہونٹ اس کے ہونٹوں پر پیوست کردیے۔ یہ سب اتنا غیر متوقع تھا کہ وہ سٹ پٹا گیا۔ لمحہ بھر کو اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ البتہ اس کے دونوں ہاتھ اضطراری طور پر اس کی کمر کے گردحمائل ہوگئے، اور اس نے بھی پوری گرم جوشی کے ساتھ اسے بھینج لیا۔ ہنسی، قہقہوں اور نعروں سے میدان گویا ہوا میں اڑا جارہا تھا۔ اتنے میں گراؤنڈ کے سیکوریٹی گارڈز ان کی طرف دوڑے مگر اس سے پہلے کہ وہ اُن تک پہنچتے وہ اس سے چھٹک کر بجلی کی سرعت کے ساتھ ایک طرف بھاگ گئی۔ گارڈز اس کے پیچھے لپکے مگر وہ تیزی سے بھاگتی ہوئی تماش بینوں کی بھیڑ میں گم ہوگئی۔ اس کے ساتھی کھلاڑی اسے کاندھے پر اٹھائے پویلین کی طرف جارہے تھے۔ مگر وہ مڑ مڑ کر اسی طرف دیکھتا رہا جہاں لڑکی تماشائیوں کے درمیان غائب ہوئی تھی۔

یہ واقعہ اس کے ذہن پر ایسا نقش ہوا کہ اس کے بعد جب بھی وہ میدان میں اترتا اس کی متجسس نگاہیں تماشائیوں میں اسے تلاش کرنے لگتیں اور ہر سیاہ فام لڑکی پر اس کا گمان گزرتا مگر وہ لڑکی اسے پھر کبھی نظر نہیں آئی۔ البتہ اس کے بوسے کی تپش کو وہ تا عمر محسوس کرتا رہا۔ اس کی شادی ہوگئی۔ سہاگ رات پر جب اس نے بیوی کا پہلا بوسہ لیا تو ایک دم اسے اس لڑکی کے سرخ گداز اور گرم ہونٹ یاد آگئے۔ اس کے بعد اس نے اپنی بیوی کے ہزاروں بوسے لیے ہوں گے مگر اس سیاہ فام لڑکی کے آتشیں بوسے کی حرارت کو وہ کبھی فراموش نہیں کرسکا۔

وہ سوچنے لگا بعض اوقات معمول واقعات بھی زندگی کے کینواس پر کیسا گہرا نقش چھوڑ جاتے ہیں۔ اس نے ایک اچھی اور اطمینان بخش زندگی گزاری تھی۔ سلیقہ مند، خوبصورت بیوی، ہونہار بیٹا، خدمت گزار بہو، ہیرے جیسے دوپیارے پیارے پوتے، پنشن کے علاوہ کئی لاکھ کی فکس ڈپازٹ، بیٹا ایک بڑی فرم میں منیجر، موٹی تنخواہ، بہو ٹیچر، گھر میں روپیوں کی ریل پیل، کسی چیز کی کمی نہیں، کوئی حسرت نہیں، چار سال قبل میاں بیوی حج سے بھی سرفراز ہوچکے تھے۔ پچھلے سال پوری فیملی عمرہ بھی کر آئی۔ اسے مذہب سے کوئی خاص لگاؤ نہیں تھا مگر ریٹائرمینٹ کے بعد فجر اور مغرب کی نمازیں پڑھ لیا کرتا، البتہ جمعہ کی نماز کبھی ناغہ نہ کرتا۔ رمضان میں کبھی کبھی گنڈے دار روزے بھی رکھ لیا کرتا۔

وہ ایک سیدھا سادہ عام سا شخص تھا۔ کلرک تھا تب اپنے باس کا احترام کرتا اور اس کے احکامات کی پیروی کرنا اپنا فرض سمجھتا۔ جب خود آفیسر بنا تو اپنے ماتحتین سے نرم روی اور کشادہ قلبی سے پیش آتا، وہ اپنے اسٹاف میں کافی ہر دلعزیز تھا۔ جب وہ ریٹائر ہوا تو اس کے اسٹاف نے اسے ایک شاندار سینڈ آف پارٹی دی اور بطور گفٹ قیمتی سونے کی گھڑی پیش کی۔

ریٹائرمینٹ کے بعد چند ماہ میں ہی اس کا وزن بڑھنے لگا۔ فیملی ڈاکٹر نے بتایا کہ بڑھاپے میں وزن بڑھنا خطرے سے خالی نہیں۔ کولیسٹرول کو کنٹرول میں رکھو اور روزانہ ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ واک کرو۔ گھر سے ذرا فاصلے پر جوگرس پارک تھا اس نے پہلی فرصت میں جوگرس پارک کی ممبرشپ لے لی اور روزانہ صبح واک کرنا اپنا معمول بنا لیا۔

چلتے چلتے اچانک اسے ٹھوکر لگی۔ وہ گرتے گرتے بچا۔ ایک روڑا جوتے کی نیچے آگیا تھا۔ اس نے ہلکی سی ٹھوکر کے ساتھ روڑے کو ایک طرف ہٹا دیا۔ ایک موٹر سائیکل پھٹ پھٹاتی ہوئی اس کے قریب سے نکل گئی۔ اس نے ارد گرد نگاہ ڈالی۔ اچانک اس نے محسوس کیا کہ وہ بے خیالی میں کسی اور طرف نکل آیا ہے۔ جوگرس پارک کا راستہ تو پیچھے چھوٹ گیا تھا۔ اسے کوفت بھی ہوئی اور حیرت بھی کہ ایسا کیسے ہوا؟ روزانہ کا دیکھا بھالا راستہ وہ کیسے بھول گیا۔ وہ کافی دُور نکل آیا تھا مگر واپس مڑنے کی بجائے وہ آگے بڑھتا رہا۔ سوچااگلے کسی موڑ پر جوگرس پارک کی طرف مڑ جائے گا۔ سورج نکل آیا تھا اور کنکنی دھوپ میں تمازت محسوس ہونے لگی تھی۔ اس نے شال کو لپیٹ کر ہاتھ میں لے لیا۔ جیب سے رومال نکال کر پیشانی سے پسینہ پونچھا۔ اسے تھکن محسوس ہورہی تھی۔ اس نے اِدھر اُدھر دیکھا سامنے ایک بس اسٹاپ نظر آرہا تھا مگر وہاں کوئی مسافر دکھائی نہیں دیا۔ اس نے سوچا بس اسٹاپ پر تھوڑا سُستا لینا چاہئے۔ وہ بس اسٹاپ کے قریب پہنچا۔ بس اسٹا پ کی پیشانی پر کینسل لکھا ہوا تھا اور اس کی حالت بڑی خستہ تھی۔ وہ بس اسٹاپ کی شکستہ نشست پر بیٹھ گیا۔ کافی دن نکل آیا تھا۔ اس نے سوچا اب جوگرس پارک جانا بیکار ہے۔ اس نے فیصلہ کیا کہ تھوڑا سُستا کر وہ واپس گھر چلا جائے گا۔ سڑک پر اکّا دکّا سواری آجارہی تھی۔ اس نے نشست کی پشت سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کرلیں۔ اسے بڑی راحت ملی۔ اس پر ہلکی سے غنودگی طاری ہونے لگی۔ پھر اسے پتا نہیں وہ کتنی دیر تک اسی کیفیت میں بیٹھا رہا۔ جب آنکھ کھلی تو اس نے مچ مچاتی آنکھوں سے اپنے ارد گرد دیکھا۔ چاروں طرف ایک غبار آلود سنّاٹا پھیلا ہوا تھا۔ اس نے آنکھیں ملیں۔ عینک اتار کر شیشے صاف کئے اور دوبارہ عینک لگا کر اپنے چاروں طرف نگاہ ڈالی۔ یہ تو قبرستان ہے۔ وہ قبرستان میں بچھی ایک بینچ پر بیٹھا تھا۔ اس نے غور سے دیکھا یہ تو وہی قبرستان ہے جو جوگرس پارک سے ذرا سے فاصلے پر واقع تھا اور وہ کئی بار مختلف جنازوں کے ساتھ یہاں آچکا تھا۔

اسے یاد آیا کہ بس اسٹاپ پرسُستاتے وقت اس کی آنکھ جھپک گئی تھی۔ تو کیا وہ غنودگی کے عالم میں چلتا ہوا جوگرس پارک کی بجائے قبرستان آگیا تھا۔ مگر اسے کبھی نیند میں چلنے کا مرض تو نہیں تھا۔ اس نے سوچا یہ تو بڑی تشویش کی بات ہے۔ ڈاکٹر سے مشورہ لینا پڑے گا۔ وہ کپڑے جھاڑتا ہوا اٹھا اور قبروں کے درمیان بنی ہوئی روش پر چلتا ہوا گیٹ کی طرف بڑھا۔ چند قدم چلا تھا کہ سامنے گیٹ سے ایک جنازہ داخل ہوتا نظر آیا۔ لوگ سفید گول ٹوپیاں اوڑھے یا سروں پر رومال باندھے جنازے کو کاندھا دیتے ہوئے چلے آرہے تھے۔ وہ چلتے چلتے رک گیا۔ جنازے کو پیٹھ دکھانا مناسب نہیں تھا، اسے جنازے میں کچھ شناسا چہرے بھی نظر آئے۔ اسے تشویش ہوئی۔ کس کا جنازہ ہے؟ لوگ جنازہ لئے ایک تازہ کُھدی ہوئی قبر کے پاس پہنچ گئے۔ جنازے کو اتار کر زمین پر رکھا۔ وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا ہوا بھیڑ کے قریب پہنچا۔ ایک شناسا چہرے والے سے پوچھا ’’کون تھا؟‘‘ وہ کوئی جواب دیئے بغیر آگے بڑھ گیا۔ شاید اس نے اس کا سوال ہی نہیں سنا۔

جنازے میں شریک لوگ قبرستان میں اِدھر اُدھر بکھر گئے تھے۔ کچھ قبرستان میں بچھی بینچوں میں بیٹھ گئے۔ بعض چار چار پانچ پانچ کی ٹکڑیوں میں بٹے دھیمے دھیمے بتیا رہے تھے۔ دن ڈھل رہا تھا۔ سایے لمبے ہوتے جارہے تھے۔ اسے ایک بار پھر حیرت نے آگھیرا۔ پورا دِن گزر گیا اور اسے پتا بھی نہیں چلا۔ اتنے میں کسی نے آواز دی۔ ’’میّت کے رشتے دار آخری دیدار کرلیں‘‘ اس نے سوچا کسی سے کچھ پوچھنے کی بجائے خود چل کی دیکھ لینا چاہئے کہ میّت کس کی ہے؟

لوگ قبر کو گھیرے کھڑے تھے وہ لوگوں کے درمیان سے راستہ بناتا ہوا قبر کے کنارے پہنچ گیا۔ قبر میں جھانک کر دیکھا۔ میّت کو قبر میں لٹا دیا گیا تھا۔ کوئی شخص قبر میں ہی کھڑا تھا۔ ارے یہ تو غوث محمد تھا۔ جو اکثر محلے والوں کی موت مٹّی یا شادی بیاہ میں پیش پیش رہتا تھا۔ مولوی صاحب کی آواز آئی

’’چہرہ دکھاؤ۔‘‘

غوث محمد نے جھک کر میّت کے چہرے سے کفن ہٹایا۔ اس نے میّت کو غور سے دیکھا۔ اسے جھٹکا سا لگا۔ میت کی شکل اس سے ملتی جلتی تھی۔ یہاں تک کہ اس کے سیدھے گال پر بڑا سا مسا بھی صاف نظر آرہا تھا۔ اس نے بے اختیار اپنے گال پر ہاتھ پھیرا۔ اس کے گال پر بھی ویسا ہی مسّا موجود تھا۔ اس نے گھبرا کر اطراف کے لوگوں پر نگاہ ڈالی۔ بیشتر اس کے عزیز رشتے دا ر تھے۔ چھوٹا بھائی اختر، اس کا بیٹا اکرم، غفور چچا، اس کا دوست امین مرزا، اس نے دیکھا اکرم کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور وہ منہ پر رومال رکھے اپنی سسکیوں کو دبانے کی کوشش کر رہا تھا۔

چھوٹے بھائی کا بھی تقریباً وہی حال تھا۔ غوث محمد نے جھک کر میّت کا چہرہ کفن سے ڈھک دیا اور جلدی جلدی قبر میں برگے لگانے لگا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ اس نے بیٹے کو آواز دی۔ ’’اکرم!‘‘ پھر چھوٹے بھائی کو پکارا ۔۔۔ ’’اختر!‘‘ مگر اس کی آواز کوئی سن ہی نہیں رہا تھا۔ غوث محمد برگے لگانے کے بعد اچک کر قبر کے باہر آگیا۔ مولوی صاحب نے آواز لگائی۔

’’قل کی مٹّی دیجئے۔۔۔‘‘ لوگ مٹھیاں بھر بھر کر قبر میں مٹّی ڈالنے لگے۔ غوث محمد اور گورکن پھاوڑوں کے ذریعے تیزی سے قبر میں مٹّی سرکانے لگے۔ اس نے ایک چیخ ماری۔

’’ارے سنو! آپ لوگ کیا کر رہے ہیں؟ کسے گاڑ رہے ہیں۔ میری طرف دیکھو۔ میں زندہ ہوں۔ کیا تم سب لوگ اندھے بہرے ہوگئے ہو؟ کیا تمہیں میں دکھائی نہیں دے رہا ہوں؟ کیا تمہیں میری چیخیں سنائی نہیں دے رہی ہے؟‘‘

بھر بھر ۔۔۔ بھر بھر ۔۔۔ قبر مٹّی سے بھرتی جارہی تھی۔ وہ چیختا، روتا، بلبلاتا، وہیں قبر کے سرہانے اُکڑوں بیٹھ گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے قبر مٹّی سے بھر دی گئی۔ غفور چچا نے اگربتّیوں کا بنڈل نکالا اور ایک ساتھ دس پندرہ اگربتّیاں سُلگائیں اور انہیں قبر کی مٹّی میں کھبو دیا۔ وہ اُسی طرح قبر کے سرہانے اکڑوں بیٹھا یہ سب دیکھ رہا تھا۔ اب اس میں رونے کی سکت بھی باقی نہیں تھی۔ مولوی صاحب نے فاتحہ پڑھی اور لوگوں کی بھیڑ چھٹنے لگی۔ اس کا بیٹا، بھائی چچا اور دوست رشتہ دار سب ایک ایک کرکے قبرستان سے باہر نکل گئے۔ وہ اس طرح گم سم قبر کے سرہانے بیٹھا رہا۔ اگر بتیاں سلگ رہی تھیں اور ان کا دھواں بل کھاتا ہوا، ہوا میں تحلیل ہوتا جارہا تھا۔ اگربتیوں کی راکھ جھڑ جھڑ کر زمین پر گر رہی تھی۔ اسے محسوس ہوا کہ اب اس کا وجود بھی اگر بتیوں کی راکھ کی طرح جھڑ جھڑ ۔۔۔ جھڑ جھڑ کر زمین پر گر رہا ہے۔ تھوڑی ہی دیر میں اس کا پورا وجود ریزہ ریزہ ہوکر مٹی میں مٹی ہوگیا، اور آخر میں اس کے ہونے کا احساس بھی دھوئیں کی طرح دھیرے دھیرے فضا میں تحلیل ہوتے ہوئے گم ہوگیا۔
__⚫

غزل…

روٹھنا ان کا ہے بے جا ٹھیک بھی
دور ان سے ہوں بہت نزدیک بھی

ہیں پرکھنے کے طریقے مختلف
عینکیں روشن بھی ہیں تاریک بھی

لفظ کا مفہوم لہجے سے سمجھ
"واہ” میں تعریف بھی تضحیک بھی

نقص جو کھل کر بتادے دوست وہ
دل پہ نشتر باعثِ تحریک بھی

نفرتوں کا لقمہءِ تر زہر ہے
پیار میں منظور کرلوں بھیک بھی

دَور کرتا ہے تقاضا مان لے
ہے ضروری علم بھی تکنیک بھی

نوؔر ذوقِ شعر گوئی بات الگ
شاعری فن بال سے باریک بھی

نور پاتوری
ساکن. اکولہ
ریاست مہاراشٹر انڈیا
Noor Paturi


طرحی غزل

آئینہ دیکھوں تو میں چہرہ تمہارا دیکھوں
اوج پر یوں بھی مرے بخت کا تارہ دیکھوں

بد گمانی جو دل و ذہن پہ طاری ہے مرے
شبنمی بوند میں بھی یار شرارہ دیکھوں

موسمِ گل میں جو کھوئی ہے میں نے بینائی
تپتے صحرا میں بھی گلشن کا نظارہ دیکھوں

جاں پہ بن آئی مرے سر سے جو گزرا پانی
ڈوبتے وقت میں تنکے کو سہارا دیکھوں

میں نے پستی میں بھی دیکھی ہے بلندی انجم
ذرہءِ خاک کو بھی عرش کا تارہ دیکھوں

شکیل انجم مینانگری جلگاؤں
۔۔۔۔۔۔۔موبائل:-9403247851

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے