دیارِ ادیب مالیگاوں سیف نیوز ادبی پوسٹ

حجاب فیصلہ: کیا باحجاب طالبات کی زندگیوں کی کسی کو فکر ہے؟
شکیل رشید
(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)
لیجیے جناب !حجاب معاملہ پر سپریم کورٹ بٹ گیا !
ویسے بٹنے کا یہ عمل باعثِ حیرت نہیں ہے کہ ان دنوں سارے بھارت میں لوگ بٹے ہوئے ہیں ۔ نفرت کی ایک آندھی چل رہی ہے ، اور لوگوں کو ایک دوسرے سے مخالف سمت میں اڑاتی چلی جا رہی ہے ۔ کچھ دائیں جانب ، تو کچھ بائیں جانب ، اور کچھ درمیان میں ۔ نفرت کی بات پھر کبھی ، آج حجاب معاملہ کی بات ہو جائے ۔ واضح رہے کہ یہ معاملہ گذشتہ سال جولائی میں اس وقت شروع ہوا تھا جب کرناٹک کے اڈوپی ضلع کے ایک جونیئر کالج نے طالبات کو حجاب پہن کر اسکول جانے سے روک دیا تھا ۔ یکم جولائی ۲۰۲۱ء کو گورنمنٹ پی یو کالج فار گرلز کی انتظامیہ نے کالج یونیفارم پر فیصلہ لیا تھا کہ کس قسم کے لباس کو قبول کیا جائے گا اور کون سے قسم کا لباس ممنوع ہوگا ۔ انتظامیہ نے کہا تھا کہ طالبات کے لیے ان ہدایات پر عمل کرنا لازمی ہے ۔ جب کووڈ لاک ڈاؤن کے بعد کالج دوبارہ کھلا تو کچھ طالبات کو معلوم ہوا کہ سنیئر طالبات حجاب پہن کر آتی تھیں ۔ ان طالبات نے اس بنیاد پر کالج انتظامیہ سے حجاب پہننے کی اجازت مانگی تھی ۔ واضح رہے کہ اڈوپی ضلع میں جو کالج ڈیولپمنٹ کمیٹی سرکاری جونیئر کالجوں کے یونیفارم کا فیصلہ کرتی ہے اس کی سربراہی مقامی رکن اسمبلی کرتے ہیں ۔ بی جے پی کے رکن اسمبلی رگھویر بھٹ نے مسلم طالبات کا مطالبہ قبول نہیں کیا اور انھیں کلاس کے اندر حجاب پہننے کی اجازت نہیں دی گئی

۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق جب دسمبر ۲۰۲۱ءمیں طالبات نے حجاب پہن کر کیمپس میں داخل ہونے کی کوشش کی تو انھیں باہر ہی روک دیا گیا ۔ ان لڑکیوں نے اس کے بعد ہی کالج انتظامیہ کے خلاف احتجاج شروع کیا ۔ فروری ۲۰۲۰ء میں اڈوپی کے پری یونیورسٹی کالج کی انتظامیہ کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ مسلمان خواتین کالج کی حدود میں تو حجاب کا استعمال کر سکتی ہیں لیکن کلاس کے دوران نہیں ۔ اس اعلان کے بعد ، کالج کی انتظامیہ کی جانب سے حجاب کے خلاف سخت اقدام کی وجہ سے کالج کی آٹھ طالبات کئی ہفتوں سے کلاسوں میں نہیں جا سکی تھیں ۔ کالج میں ہزار طالبات میں سے صرف ۷۵ مسلمان تھیں ، ان میں بھی کوئی ایک درجن لڑکیاں ہی حجاب یا برقعہ پہنتی تھیں ۔ کالج انتظامیہ کی جانب سے کارروائی ، اور طالبات کے حجاب نہ اتارنے پر مصر رہنے کی بات ، دیکھتے ہی دیکھتے آگ کی طرح سارے ملک میں پھیل گئی ۔ اس کا ایک ردعمل یہ سامنے آیا کہ اڈوپی کے کالج سے سو کلومیٹر کے فاصلے پر چکمنگلور میں کوپا کے ایک کو – ایڈ کالج میں بہت سی طالبات نے بھگوا رنگ کا اسکارف پہننا شروع کر دیا ۔ اور پھر کرناٹک کے تقریباً سارے تعلیمی اداروں میں باحجاب طالبات کو حجاب اتارنے پر مجبور کیا جانے لگا ، اس تعلق سے اُس دور میں سوشل میڈیا پر بہت سی ویڈیو اَپ لوڈ کی گئی تھیں ، انہیں آج بھی دیکھا جا سکتا ہے ۔ ایسی ہی ایک ویڈیو میں سنا اور دیکھاجا سکتا ہے کہ ایک طالبہ انتظامیہ سے درخواست کر رہی ہے کہ اسے امتحانات کی تیاری کے لیے کلاس میں بیٹھنے کی اجازت دی جائے ، لیکن کالج کے پرنسپل اسے حجاب کے ساتھ داخلے کی اجازت دینے سے انکار کر رہے ہیں ۔ یہی نہیں وہ ویڈیو آج بھی دیکھی جاسکتی ہے جو اس معاملہ میں ہندوتووادیوں کی منصوبہ بندی کا منھ بولتا ثبوت ہے ۔ ویڈیو حجاب کے واقعے سے ایک دن قبل کی ہے ، بھگوا دھاری نوجوانوں کے ایک گروہ نے اسی کالج میں آکر مسلم خواتین کے حجاب پہننے پر احتجاج کیا تھا ۔ بعد میں کرناٹک میں کم از کم تین دیگر کالجوں میں بھی ایسے ہی احتجاج کیے گئے ۔ اس وقت کرناٹک کے وزیرتعلیم نگیش بی سی نے کہا تھا کہ بھگوا رنگ کے اسکارف اور حجاب دونوں پر ہی پابندی لگنی چاہیے

۔ حجاب کا معاملہ مسلمانوں اور ہندوؤں کے بیچ دوریوں کو بڑھانے کے لیے مزید گرمایا گیا ۔ سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے حجابی طالبات پر شرم ناک بہتان لگائے گیے ۔ اتر پردیش میں ۱۰، فروری ۲۰۲۲ء سے اسمبلی کے الیکشن تھے ، اس الیکشن کی انتخابی مہم میں بی جے پی نے ، اور آدتیہ ناتھ یوگی نے حجاب کے معاملہ کو شامل کر لیا ۔ کرناٹک میں جو سیاسی اتھل پتھل مچی ہوئی تھی ، اس میں بھی حجاب معاملہ کو خوب ہوا دی گئی ۔ افسوس کہ کسی کو بھی اُن مسلم بچیوں کی ، جو باپردہ بھی رہنا چاہتی تھیں اور پڑھنا بھی چاہتی تھیں ، کوئی خیال نہیں رہا ۔ جنوری ۲۰۲۰ء میں حجاب پر پابندی کے خلاف کرناٹک ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی ، اور مارچ کے مہینے میں کرناٹک ہائی کورٹ نے حجاب پر پابندی کو درست قرار دے دیا ۔ ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ ’’ اسلام کے مطابق حجاب لازمی نہیں ہے ۔‘‘ ہائی کورٹ نے اپنے ۱۲۹ صفحات پر مشتمل فیصلے میں قرآن کی آیات اور متعدد اسلامی تحریروں کا حوالہ دیا تھا ۔ طالبات کی جانب سے ، کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ، جس پر جمعرات ۱۳ ، اکتوبر کو ، ایک لمبی سماعت کے بعد ، فیصلہ سنایا گیا ، جو بٹا ہوا تھا ۔ یہ جسٹس سدھانشو دھولیا اور جسٹس ہیمنت گپتا کی ڈیویژن بنچ تھی ، یعنی دو ججوں پر مشتمل بنچ ۔ جسٹس ہیمنت گپتا نے کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کو درست ، جائز اور صحیح قرار دیا ، اور فیصلے کے خلاف جو ۲۶ اپیلیں دائر کی گئی تھیں انہیں خارج کر دیا ۔ اس فیصلے کے دوسرے ہی دن وہ ریٹائرڈ ہو گیے ۔ جسٹس سدھانشو دھولیا نے کرناٹک ہائی کورٹ کے ، حجاب پر پابندی کی برقراری کے ٖفیصلے کو غلط قرار دیتے ہوئے تمام دائر اپیلوں کے حق میں ٖفیصلہ دیا ۔ چونکہ دو ججوں پر مشتمل بنچ کا فیصلہ بٹا ہوا ہے اس لیے اب ملک کے چیف جسٹس یو یو للت اسے بڑی بنچ کے سپرد کریں گے ، ایک ایسی بنچ جو پانچ یا سات ججوں پر مشتمل ہوگی ، تاکہ جو بھی فیصلہ آئے وہ بھلے بٹا ہوا ہو ، لیکن طاق عدد ہونے کی بِنا پر ، کوئی فیصلہ ، حجاب کے حق یا اس کی مخالفت میں کرنا ممکن ہو سکے ۔
جسٹس ہیمنت گپتا کے حجاب پر پابندی برقرار رکھنے کے فیصلے پر مجھے ملک کے ایک سابق چیف جسٹس رنجن گگوئی یاد آ گیے ۔ اپنے ریٹائرہونے سے ایک روز پہلے ، انہوں نے بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کے لیے سونپنے کا فیصلہ سنایا تھا ۔ لہٰذا اگر مسلمانوں اور ہندوؤں سے متعلق کوئی حساس معاملہ عدالت میں ہوتا ہے ، اور مجھے پتہ چلتا ہے کہ فیصلہ سنانے کے ایک دن بعد جج صاحب ریٹائر ہونے والے ہیں ، تو دل یہ کہنے لگتا ہے کہ فیصلہ یکطرفہ ہوگا ۔ یہ سننے کے بعد کہ معاملہ اب ایک لارجر بنچ یعنی بڑی بنچ کے سامنے پیش ہوگا ، مجھے طلاق ثلاثہ کا مقدمہ یاد آگیا ہے ۔ بات ۲۰۱۷ء کی ہے ، سپریم کورٹ کی پانچ ججوں پر مشتمل آئینی بنچ ایک ۳۵ سالہ خاتون سائرہ بانو کے طلاق کے مقدمہ پر سماعت کرتے ہوئے طلاق ثلاثہ کے جائز یا نا جائز ہونے پر فیصلہ دینے والی تھی ۔ پانچ ججوں میں سے تین نے یہ فیصلہ دیا کہ طلاق ثلاثہ غیر اسلامی ہے ۔ اس کے بعد پارلیمنٹ میں طلاق ثلاثہ کے خلاف ایک قانون منظور کرا لیا گیا اور یہ دعویٰ کیا گیا کہ مودی سرکار نے مسلم خواتین کی حالتِ زار دیکھ کر طلاق ثلاثہ پر پابندی کا فیصلہ کیا ہے ۔ مجھے طلاق ثلاثہ کے فیصلے پر کوئی بات نہیں کرنی ہے سوائے اس کے کہ جس مودی سرکار کو مسلم خواتین کی طلاقوں سے نیند نہیں آتی تھی ، اس مودی سرکار کو کیسے مسلم بچیوں کو تعلیم سے محروم کر کے نیند آئے گی ۔

خیر بات چل رہی تھی بڑی بنچ کی ، تو ہمارے سامنے بڑی

بنچ کی ایک مثال موجود ہے ، کہیں پھر اسی طرح کا کوئی فیصلہ نہ آجائے کہ پھر سارے ملک کے تعلیمی اداروں میں ان مسلم طالبات کا ، جو حجاب پہننا چاہتی ہیں ، باحجاب ہونا دشوار ہوجائے ۔ ایک اطلاع کے مطابق ۱۷ ہزار مسلم طالبات نے تعلیمی سلسلہ اس لیے منقطع کر لیا ہے کہ وہ حجاب اتارنا نہیں چاہتیں ۔ یہ سوال پوچھا جانا چاہیے کہ اگر کوئی ’ مسکان ‘ حجاب پہننا چاہتی ہے تو کیا یہ اس کا حق نہیں ہے ؟ سوال کیا جاتا ہے کہ ایک سیکولر ملک میں کیوں کسی تعلیمی ادارے میں حجاب پہن کر آیا جائے ، یہ تو ایک مذہبی شعار ہے ؟ اس سوال کا جواب اس سوال سے بھی دیا جا سکتا ہے کہ کیا کسی سرکاری دفتر میں دیوی دیوتاؤں کی تصاویر کا لگانا ، ان پر پھول ہار چڑھانا یا کسی اسکول میں صلیب کا نصب کرنا یا سکھ فرقے کے افراد کو پگڑی پہننے کی اور کرپان رکھنے کی اجازت دینا ، یا بہت سے ہندوؤں کا اپنے ماتھے پر تلک اور ٹیکہ لگا کر سرکاری دفاتر میں آنا ، کیا مذہبی حقوق نہیں ہیں ؟ بلاشبہ یہ سب مذہبی حقوق ہی ہیں ، لیکن قابلِ اعتراض نہیں ہیں ، کیونکہ یہ آئینی حقوق ہیں ، ان سے روکنا آئین کی توہین کرنا ہوگا ۔ کیا لوگ نہیں جانتے کہ اس سیکولر ملک کی ایک ریاست اترپردیش میں ایک یوگی بھگوئے لباس میں وزیرِ اعلیٰ کی گدی پر بیٹھتا ہے ، ایک سادھوی ، جو مالیگاؤں بم بلاسٹ کی ملزمہ ہے ، بھگوئے لباس میں پارلیمنٹ میں جاتی ہے؟سب جانتے ہیں ۔ لیکن ہر ایک کو اپنی مرضی کا لباس ، چاہے وہ لباس مذہبی شناخت ہی کیوں نہ ظاہر کرتا ہو ، پہننے کی اجازت ہے ، کیونکہ یہ آئینی حق ہے ، اسی طرح انہیں بھی ، جو برقعہ پہننا چاہتی ہیں ، حق حاصل ہے کہ وہ برقعہ پہنیں ۔ ممکن ہے کہ بہت سے لوگ کہیں کہ برقعہ مذہبی حق نہیں ہے ، لیکن سچ یہی ہے کہ برقعہ مذہبی حق ہے اور اسلامی شریعت میں برقعہ پہننے کی تاکید ہے ۔ اب کوئی برقعہ پہنے نہ پہنے اس کی اپنی مرضی ، نہ کسی کے پہننے سے شریعت بدل جائے گی نہ کسی کے نہ پہننے سے شریعت کے اصول تبدیل ہو جائیں گے ۔ یہاں صرف یہ کہنا مقصود ہے کہ برقعہ یا حجاب سے روکنے کا معاملہ مذہبی ہونے کے ساتھ ساتھ آئینی بھی ہے ۔


بھلے ایک جسٹس نے باحجاب طالبات کے تعلیم حاصل کرنے کے حق کو ماننے سے انکار کردیا ہے ، لیکن یہ ایک حق بہرحال ہے ۔ جسٹس دھولیا نے ایک بہت ہی اچھی بات کہی ہے کہ ’’ اس معاملے میں کرناٹک ہائی کورٹ نے ’ مذہب کا لازمی جزو ‘ کے جس نظریہ کو بنیاد بنا کر پابندی کا فیصلہ سنایا وہ غیر ضروری ہے ۔ ہائی کورٹ نے غلط راستہ اختیار کیا ، یہ دراصل آئین کے آرٹیکل ۱۹(۱) (اے )اور ۲۵(۱) کی رو سے شخصی آزادی اور پسند سے زیادہ کا معاملہ نہیں ہے ۔ میرے ذہن میں یہ سوال تھا کہ کیا ہم پابندی کے ذریعے ان کی زندگی بہتر بنا رہے ہیں ؟ اسی سوال کی بنیاد پر میں نے ۵ ، جنوری کے حکومت کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے پابندیوں کو ختم کرنے کا فیصلہ سنایا ۔‘‘ اور سچ یہی ہے کہ سپریم کورٹ کی دو رکنی بنچ کے بٹے ہوئے فیصلے کے بعد سب سے بڑا سوال ہم سب کے سامنے یہی ہے کہ کیا ہم لوگ ان باحجاب طالبات کی زندگیوں میں کوئی بہتری لا رہے ہیں ؟


عالمی اردو فکشن
ہارر افسانہ ایونٹ 2020
افسانہ :44
شاداب رشید،ممبئی، ہندوستان

                            قبرستان 

موبائل فون کی گھنٹی بجتے ہی میری آنکھ کھل گئی۔ اسکرین پر رحمت کا نمبر فلیش ہورہا تھا ۔ اتنی صبح صبح رحمت کا فون آتے ہی میں نے اندازہ لگا لیا کہ ہو نہ ہو اُس کے ابّا کا انتقال ہوگیا ہے۔ بے چارے تقریباً ایک سال سے بستر پر تھے۔ پہلے پہل تو تھوڑا بہت چل پھر بھی لیتے تھے لیکن آہستہ آہستہ چلنے پھرنے سے بھی معذور ہوگئے تھے ۔ بیماری کے بڑھتے بڑھتے آواز نے بھی ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ ایک زمانہ تھا جب وہ نیچے والی منزل سے رحمت کو آواز دیتے تھے تو اُن کی گرجدار آواز سن کر پوری بلڈنگ کے بچے دبک جایا کرتے تھے اور اب ، صرف غوں غاں کر کے ہی رہ جاتے تھے، ایک رحمت کی امّی ہی تھیں جو تھوڑا بہت اُن کی باتیں سمجھ پاتی تھیں۔ کھانے پینے کے علاوہ تمام حاجت بستر پر ہی لیٹے لیٹے پوری کرتے تھے۔
سیکنڈ کے سویں حصے میں یہ تمام باتیں میرے ذہن میں گھوم گئیں۔ میں بُری خبر سننے کے لیے تیار ہوگیا۔ ہیلو بولنے پر دوسری طرف سے رحمت کی پژمردہ آواز سنائی دی۔
’’بھائی، امّی کا انتقال ہوگیا۔‘‘ میں دھک سے رہ گیا۔
’’کیا ؟ کیا کہا؟ کس کا ؟‘‘
’’امی کا بھائی، آج صبح فجر کے وقت ہارٹ اٹیک آیا تھا۔ اسپتال لے کر نکلے تو اسپتال پہنچنے سے پہلے ہی راستے میں دم توڑدیا۔ ‘‘
’’اچھا۔ تدفین کب ہے؟‘‘
’’آج، ظہر بعد۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ اپنا خیال رکھنا۔ میں آتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر میں نے فون رکھ دیا۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ کیسے ہوگیا۔ جب رحمت نے اپنے تمام خاندان والوں کو اس درد ناک حادثے کی خبر دی ہوگی تو تقریباً ہر کوئی یہی سوچ رہا ہو گا کہ آخر اُس کی امّی اُس کے ابّا کے پہلے کیسے چلی گئیں ؟ رحمت کی امی تو اچھی بھلی تھیں۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی اُن سے میری ملاقات ہوئی تھی ۔ کافی ہنس مکھ تھیں، پانچ بچوں کی ماں، چار لڑکیوں کے بعد اکلوتے رحمت پر جان چھڑکتی تھیں۔ چاروں بیٹیوں کی شادی کرنے کے بعد رحمت کی بھی چھ مہینے پہلے دھوم دھام سے شادی کی تھی۔بھابھی بھی بات چیت میں اچھی ہےپھر پتا نہیں ایسا کیا ہوگیا کہ اچانک… وہ بھی ہارٹ اٹیک!! میں نے اپنی اب تک کی زندگی میں آج تک نہیں سنا کہ کسی عورت کو ہارٹ اٹیک آیا ہو!
نہا دھوکر میں جلدی سے ناشتہ کرنے بیٹھ گیا۔ ناشتہ کرتے ہی میں نے ہمارے مشترکہ دوست شفیق کو فون کیا ۔ اُسے بھی رحمت سے خبر مل چکی تھی۔ اُس نے بتایا کہ وہ کام پر نکل چکا ہے، دوپہر میں لنچ کے وقت وہ سیدھے ناریل واڑی قبرستان پہنچ جائے گا۔میں بھی اپنے دفتر کے لیے نکل پڑا تاکہ جلدی سے اپنا کام نپٹا کر دوپہر تک فارغ ہوجاؤں اور قبرستان جانے کی تیاری کروں۔
کہنے کو تو میں نے قبرستان جانے کی بات کہہ دی تھی لیکن دفتر جاتے ہوئے تمام راستے یہ ہی سوچتا رہا کہ رحمت کے گھر تک تو چلا جاؤں گا، قبرستان کیسے جاپاؤں گا؟
قبرستان جانے کا ڈر آج کل کا نہیں تھا۔ ایک زمانے سے یہ ڈر میرے اندر چھپا بیٹھا ہے۔ جب بھی کسی قریبی کی موت کی خبر آتی ہے تو میں کسی نہ کسی بہانے قبرستان نہ جانے کا راستہ نکال ہی لیتا تھا لیکن آج رحمت کی ماں کے لیے کوئی بہانہ بنانا میرے بس کے باہر تھا۔
قبرستان کا نام سن کر عموماً لوگ ڈر جاتے ہیں لیکن میرا ڈر کچھ الگ طرح کا تھا۔ وہاں کا ڈراؤنا منظر، یا مولوی صاحب کے قبر کے عذاب کا بیان اس ڈر کا باعث نہیں تھا بلکہ وہ چوتھا سوال تھا جو مجھے پریشان کیے ہوئے تھا۔

بیس سال پہلے جب ہم بمبئی سے لگے تھانے شہر میں رہا کرتے تھے تو ہماری بلڈنگ سے قریب ہی ایک درگاہ تھی اور اُ سی سے منسلک ایک قبرستان بھی تھا جہاں میں اپنے بچپن کے دوستوں کے ساتھ کھیلنے جایا کرتا تھا۔ تھانے شہر میں ویسے بھی مسلمانوں کی آبادی کم تھی اس لیے یہ چھوٹا سا قبرستان شہر کی آبادی کے لیے کافی تھا۔ قبرستان کے گیٹ کے پاس کی پکّی زمین پر میں اپنے دوستوں کے ساتھ طرح طرح کے کھیل کھیلا کرتاتھا۔
ایک رات ہم سب قبرستان کے گیٹ سے لگے چبوترے پر بیٹھے گپیں ہانک رہے تھے اور ہمارے بڑے بھائی اور اُن کے دوست ایک کونے میں چھپ کر سگریٹ پینے میں مصروف تھےکہ تبھی قبرستان کا دروازہ کھلا اور ایک میت اندر لائی گئی جس کے پیچھے پندرہ بیس لوگ آہستہ آہستہ چل رہے تھے۔ بڑے بھائی اور اُن کے ہم عمر دوستوںنے لوگوں کو اندر داخل ہوتے دیکھ کر فوراً سگریٹ بجھائی اور میت کے پیچھے پیچھے چلنے لگے۔ میرے ساتھ کے لڑکے بھی اُن کے ساتھ ہولیے ، میں بھی اُن میں شامل ہوگیا۔ میں روزانہ قبرستان میں کھیلنے تو جایا کرتا تھا مگر اسے اتفاق کہوں یا قسمت کہ اُس دن سے پہلےکبھی کسی کی تدفین ہوتے نہیں دیکھی تھی۔ پتا چلا کہ محلّے کے سب سے بزرگ فرمان چاچا کی میت ہے۔ ویسے بھی اُن کی عمر اتنی ہوہی چکی تھی کہ ہر کوئی یہی کہتا تھا کہ آج گئے یا کل گئے۔
قبرستان کے سب سے آخری کونے میں پہلے سے ہی گورکن قبر کھودنے میں مصروف تھا۔ گیس لائٹ قبر کے پاس رکھی تھی اور وہ تیزی سے پھاوڑا چلائے جارہا تھا۔ میرے لیے قبر کھودتے دیکھنے کا یہ پہلا موقع تھا ۔ جب قبر پوری کھودی جاچکی تو وہاں موجود تمام بڑے لوگوں نے میت کو آہستہ سے اُٹھا کر اپنے ہاتھوں پر لے لیا۔ دو چار بڑے بوڑھے پیچھے سے اپنا اپنا تجربہ بگھارنے میں مصروف تھے ، کوئی کہہ رہا تھا کہ کمر میں ہاتھ رکھو، کوئی چلا رہاتھا ارے قبلہ تو اس طرف ہے ، سرہانہ اس طرف لو، کوئی برگے کی لکڑیوں کی گنتی کروانے میں مصروف تھا تو کوئی قُل کی مٹی کے لیے تسلا گھمانے کا حکم دے رہا تھا۔
میت کو قبر میں اُتارنے کے بعد ایک ایک کر برگے لگائے جانے لگے پھر مٹی دینے کا جب وقت آیا تو سب کی دیکھا دیکھی میں بھی جلدی سے آگے بڑھ کر دونوں ہاتھوں سے مٹی قبر کے اندر ڈالنے لگا۔ مٹی دینے کے بعد گورکن نے آگے بڑھ کر بڑی پھرتی سے اپنا پھاوڑا اُٹھایا اور جلدی جلدی قبر کے اطراف نکالی ہوئی مٹی کو قبر میں ڈھکیلنا شروع کردیا۔ میں نے دیکھا کہ مٹی کے ساتھ ساتھ ہڈیوں کے چند ٹکڑے بھی آس پاس بکھرے ہوئے تھے جسے گورکن احتیاط سے جمع کر مٹی کے ساتھ دوبارہ اُسی قبر میں ڈھکیلتا جارہا تھا۔ اس بیچ وہاں موجود تمام لوگ ایک ایک کرو ہاں سے ہٹنے لگے ۔ میرے لیے یہ سب کچھ نیا تھا اس لیے میں بڑے انہماک سے یہ تمام کارروائی دیکھنے میں گم تھا تبھی میرے بڑے بھائی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور مجھے واپس چلنے کا اشارہ کرنے لگا۔ قبرستان کے گیٹ کی طرف بڑھتے ہوئے میں نے مڑ کر دیکھا صرف گورکن اور ایک مولوی نما شخص وہاں کھڑے ہوئے تھے، باقی تمام لوگ قبرستان کے گیٹ کے پاس جمع ہورہے تھے۔ تھوڑی دیر بعد قبر کے پاس کھڑے ہوئے شخص نے اذان دینی شروع کی، اذان ختم ہونے کے بعد جب وہ شخص بھی گیٹ کے قریب آگیا تو بڑے بوڑھوں نے کچھ رائے مشورہ کرنے کے بعد میت کے لیے دعا مانگی اور دوسرے دن بعد نمازِ عشاء قرآن خوانی کا اعلان کیا گیا۔


گھر لوٹنے کے بعد میں نے بڑے بھائی پر سوالوں کی بوچھار کردی۔ وہ بھی پہلے سے ہی تیار تھے۔ اُنھیں میری اس عادت کے بارے میں پتا تھا کہ جب بھی میں کوئی نئی چیز دیکھتا ہوں تو سوالوں کی جھڑی لگا دیتا ہوں۔ میں نے پوچھنا شروع کیا،
بھائی یہ برگے کی لکڑی کیا ہوتی ہے؟ سرہانہ قبلے کی طرف ہی کیوں رکھا جاتا ہے؟ قُل کی مٹی کیا ہوتی ہے؟ وغیرہ وغیرہ….
میرے تمام سوالوں کے جوابات بھائی نے اپنی قابلیت کے مطابق ایک ایک کرکے دینے شروع کیےاور ہمیشہ کی طرح میں اُن کے جوابوں سے مطمئن ہوتا چلا گیا۔ تبھی ایک اور سوال میرے دماغ میں اُبھرا ، ’’بھائی ، میت دفنانے کے بعد لوگوں کو واپس جانے کی اتنی جلدی کیوں ہوتی ہے؟‘‘
میرے سوال پر بھائی مسکرانے لگے۔ ’’جلدی نہیں ہوتی ہے بلکہ میت کو اکیلا چھوڑدیا جاتا ہے۔ قبر سے ۴۰ قدم دور جانے کے بعد منکر نکیر آتے ہیں مردے سے سوال پوچھنے کے لیے ۔‘‘
میرا منہ حیرت سے کھل گیا، ’’کیاااااااا!!! کون… کون آتا ہے سوال پوچھنے کے لیے؟‘‘
’’منکر نکیرنامی دو فرشتے آتے ہیں۔‘‘ میں جتنا حیرت میں تھا ، بھائی اتنے ہی اطمینان سے جواب دے رہے تھے۔
’’مگر وہ مردے سے سوال کیسے پوچھ سکتے ہیں؟ مردہ تو …مردہ تو مرچکا ہوتا ہے۔‘‘ میری حیرانی بڑھتی ہی جارہی تھی۔
بھائی کی مسکراہٹ مزید بڑھ گئی۔ ’’اللہ تبارک تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مرنے کے بعد انسان کو دوبارہ اُٹھایا جائے گا۔ پہلے قبر میں اُسے منکر نکیر کا سامنا کرنا ہوگا۔ اگر وہ بے دین یا گناہگار ہوا تو قبر کا عذاب دیا جائے گا، اُس کے بعد قیامت کے روز حشر کے میدان کے لیے دنیا کے تمام انسان دوبارہ زندہ کیے جائیں گے۔‘‘
میںقبر کا عذاب اور حشر کے میدان کے بارے میں کئی بار واعظ اور مختلف بیانات سن چکا تھا لیکن منکر نکیر اور اُن کے سوالات کے بارے میں پہلی بار سن رہا تھا۔ اس لیے میرے لیے سب سے زیادہ اہمیت فلحال منکر نکیر کی تھی۔
میں نے تجسس سے بھائی کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔’’بھائی، منکر نکیر کیا سوال پوچھتے ہیں؟‘‘
’’تین سوال… صرف تین سوال پوچھتے ہیں۔ ایک : تمھارا دین کیا ہے؟ دو : کلمہ سنواؤ۔ اور تیسرا : تمھارے نبی کون ہیں؟‘‘


’’بس… اتنا ہی۔‘‘ میں مطمئن ہوگیا ۔ ’’لیکن بھائی، اگر کوئی اتنے آسان سوالوں کے جواب بھی نہ دے سکے تو منکر نکیر اُس کے ساتھ کیا کرتے ہیں؟‘‘
’’اُن پر قبر کا عذاب نازل ہوتا ہے۔‘‘
’’اوہ ۔‘‘ قبر کے عذاب کا سنتے ہی میں اوپر سے نیچےتک کانپ گیا۔ لیکن اچانک ایک سوال اور میرے دماغ میں کلبلانے لگا۔
’’لیکن بھائی، منکر نکیر صرف تین سوال پوچھنے اتنے دور سے کیوں آتے ہیں اور وہ بھی اتنے آسان سے سوال!!‘‘
بھائی کے پاس میرے اس سوال کا کوئی جواب نہ تھا۔ اُنھوں نے صرف ’’اللہ کی مرضی‘‘ کہہ کر اپنا پلّا جھاڑ لیا لیکن میری پریشانی برقرار رہی اور میں سونے تک صرف اسی خیال میں ڈوبا رہا کہ آخر کیونکر اللہ تعالیٰ اتنے آسان سوال پوچھنے کے لیے انسان کو دوبارہ زندہ کریں گے؟

گھوڑا سر پٹ دوڑ رہا تھا، میں بڑی مشکل سے اس کی لگام تھامے ہوئے تھا ۔ میں نے پوری کوشش کی کہ گھوڑے کا بریک دبا دوں لیکن میرا پیر بریک تک پہنچ ہی نہیں رہا تھا، پیچھے سے ابّا نے زور سے ڈانٹا ، ’’میں نے تمھیں بائیک پر بیٹھنے سے منع کیا ہے نا؟ اگر گر گئی تو اپنی ٹانگ تڑوا بیٹھو گے۔‘‘ میں فوراً بائیک سے کود گیا ، لیکن زمین پر پیر پہنچنے کے بجائے میں نیچے کی جانب کسی گہری کھائی میں گرنے لگا۔ کھائی میں گرتے گرتے آخر کار میرے پیر کسی چیز سے ٹکرائے۔ چاروں طرف گھپ اندھیرا تھا، مجھے کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ میرا دم گھٹنے لگا ، میں نے اپنے منہ پر پڑا کپڑا کھینچ کر ایک طرف پھینک دیا اور اٹھ بیٹھا۔ اٹھتے ہی میرا سر کسی لکڑی سے ٹکرا گیا۔ اندھیرا اتنا تھا کہ میں خود کو صرف اپنی سانسوں سے ہی محسوس کرپارہا تھا۔ ہاتھ بڑھا کر آس پاس ٹٹولنا چاہا تو چِپ چپی مٹی ہاتھ سے چپک گئی۔ میں گھبرا کر چاروں طرف ہاتھ پیر مارنے لگا، لیکن چاروں طرف مٹی ہی مٹی تھی۔ میں نے چیخنا چاہا لیکن آواز اتنی ہی نکلی جسے صرف میں ہی سن سکتا تھا۔
اچانک پیروں کے پاس روشنی کے دو ہالے بننے شروع ہوئے۔ آہستہ آہستہ روشنی کے دونوں ہالے بڑےہونے لگے ۔اس روشنی میں اپنے اطراف دیکھا تو چاروں طرف مٹی کی دیوار کھڑی ہوئی تھی اور سر کے اوپر لکڑیاں لگی ہوئی تھیں۔میں نے خود کو مٹی کے ایک چھوٹے سے کمرے میں بند پایا۔ میری نظر دوبارہ روشنی کے اُن ہالوں پر پڑی تو اُن ہالوں کے درمیان دوسائے بیٹھے دکھائی دیے ۔ تیز روشنی سے میری آنکھیں چندھیا رہی تھیں، آہستہ آہستہ جب میری آنکھیں روشنی سے مانوس ہونے لگیں تب میں نے اُنھیں پہچان لیا۔ میری دائیں جانب بیٹھا ہوا شخص کوئی اور نہیں میرے ہی اسکول میں پڑھانے والے ریاضی کے ٹیچر مرغوب سر تھے اور بائیں جانب سائنس کے ٹیچر مدھوکر سر۔ میں پھٹی پھٹی آنکھوں سے دونوں کو گھورتا رہا تبھی مرغوب سر نے خاموشی توڑی۔
’’پہلا سوال : تمھارا دین کیا ہے؟‘‘ مرغوب سر نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔
مٹی کے اس چھوٹے سے کمرے اور دونوں ٹیچروں کو اپنے پیروں کے پاس بیٹھے دیکھ کر میری حیرت پہلے ہی کم نہیں ہوئی تھی اور اچانک یہ سوال سنتے ہی میرے بچے ہوئے ہوش بھی اُڑنے لگے۔ جب حواس قابو میں آئے تب احساس ہوا کہ یا خدا کیا میں مرچکا ہوں؟ اور میرے سامنے منکر نکیر بیٹھے ہیں؟ نہیں نہیں، یہ کیسے ہوسکتا ہے منکر نکیر میرے اسکول کے ٹیچر کیسے ہوسکتے ہیں۔ میں پچھلی باتیں یاد کرنے کی کوشش کرنے لگا کہ میں یہاں آنے سے پہلے کہاں تھا، کیا کررہا تھا اور یہاں تک پہنچنے کی باتیں مجھے کیوں نہیں یاد ہیں؟
’’پہلا سوال : تمھارا دین کیا ہے؟‘‘ میں اپنے خیالات کی کڑیاں جوڑنے میں مصروف تھا کہ تبھی مرغوب سر نے دوبارہ وہی سوال کیا۔
’’جی ، جی ، اسلام۔ سر ، سر کیا میں مر چکا ہوں؟‘‘
’’یہاں سوال پوچھنے کی اجازت صرف ہمیں ہیں۔‘‘ مرغوب سر نے جواب دیا۔
’’دوسرا سوال : کلمہ سناؤ۔‘‘ مدھوکر سر نے فوراً دوسرا سوال کیا۔
میں اس بات سے مطمئن تھا کہ مجھے تینوں سوال کے جواب معلوم ہیں۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ میں یہ ماننے کے لیے بلکل تیار نہیں تھا کہ میں مرچکا ہوں۔ میں نے فوراً کلمہ سنا دیا۔ کلمہ سناتے ہی میں نے دوبارہ سوال کرنے کی کوشش کی لیکن اُس کے پہلے ہی مرغوب سر نے تیسرا سوال پوچھ لیا۔
’’تیسرا سوال: تمھارے نبی کون ہیں؟‘‘
’’حضرت محمد صلی اللہ وعلیہ سلم۔‘‘ میں نے بڑے پُرجوش انداز میں جواب دیا اور اس بات سے بھی مطمئن ہوگیا کہ اب میں قبر کے عذاب سے تو محفوظ ہوں۔
’’چوتھا سوال…. ‘‘ جیسے ہی مدھوکر سر کے منہ سے یہ الفاظ نکلے میں اپنی جگہ سے اُچھل پڑا اور اپنے بستر سے نیچے آگرا۔ میری آنکھ کھل گئی ، میں نے دیکھا میں اپنے کمرے میں بستر کے نیچے اوندھا پڑا ہوں۔ آس پاس نہ تو مٹی کی دیوارہے اور نہ ہی کوئی چھت ہے۔ مرغوب سر اور مدھوکر سر بھی غائب تھے۔ میں زور زور سے ہانپ رہاتھا، میرا جسم پوری طرح سے پسینے میں بھیگ چکا تھااور گرمی کے باوجود میں اوپر سے نیچے تک کانپ رہا تھا۔ آہستہ آہستہ جب میرے حواس بحال ہوئے تومجھے سمجھتے دیر نہیں لگی کہ میں خواب دیکھ رہا تھا۔ یہ جان کر کہ میں ابھی زندہ ہوں جتنی خوشی مجھے ہوئی اُسے بیان کرپانا میرے لیے مشکل ہے ۔مگر یہ خوشی زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکی۔ میرے دماغ میں مدھوکر سر کا ادھورا جملہ گھوم رہا تھا، ’’چوتھا سوال… چوتھا سوال… !!‘‘ اس رات کے بعد میں قریب ایک ہفتے تک شدید بخار میں مبتلا رہا۔
اس دن کے بعد تقریباً چار پانچ بار یہی ہوا ۔ جب کبھی میں کسی کی میت میں شامل ہونے قبرستان جاتاٹھیک اُسی رات مجھے وہی خواب دوبارہ دکھائی دیتا اور میں ہربارمدھوکر سر کے منہ سے ’چوتھا سوال‘ سنتے ہی نیند سے جاگ اُٹھتا اور ہفتے بھر بخار میں تپتا رہتا۔ میں نے کئی بار اپنے بھائی اور ابّا سے جاننا چاہا کہ وہ چوتھا سوال کیا ہے جو منکر نکیر پوچھیں گے، جس پر میرےابّا ہمیشہ کی طرح میرا سوال ٹال جاتےاور بھائی مجھے بہت ڈانٹتے ۔
’’بے وقوف۔ قبر میں صرف اورصرف تین ہی سوال پوچھیں جائیں گے۔ تم سے کس نے کہہ دیا کہ چار سوال ہوں گے؟‘‘

بچپن میں اسکول میں پیش آنے والے اُن دو حادثوں نے سوال اور اُس کے بعد آنے والے خواب کو جیسے لازم اور ملزوم بنا دیا تھا۔
پانچویں کلاس میں جب حساب کے ایک سوال پر مرغوب سر نے مجھے بہت مارا تھا اور دھمکی دی تھی کہ اگر میں دوسرے دن اس سوال کا حل نہیں بتا پایا تو وہ مجھے سب کے سامنے ننگا کرکے ماریں گے۔ اُسی رات میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ مرغوب سر مجھے ننگاکر نہ صرف پورے اسکول میں گھما رہے ہیں بلکہ ساتھ ہی ساتھ چھڑی سے پیٹتے بھی جارہے ہیں۔ صبح ابّا جب مجھے اسکول کے لیے اُٹھانے آئے تو دیکھا میں بخار میں تپ رہا ہوں۔ ایک ہفتے بعد جب ڈرتے ڈرتے اسکول گیا تو دیکھا سب کچھ معمول کے مطابق تھا۔ مرغوب سر اپنی دھمکی بھول چکے تھے۔ لیکن سائنس کے پیریڈ میں ایک سوال کا جواب نہ دے پانے پر مدھوکر سر نے پورے پیریڈ مجھے مرغا بنا ئے رکھا اور کلاس ختم ہونے کے بعد جب دوبارہ اپنی جگہ پر بیٹھنے کے لیے کہا تو ساتھ ہی دھمکی بھی دی کہ اگر میں نے کل تک اس سوال کا جواب یاد نہیں کرلیا تو وہ مجھے اسکول کے میدان میں بیچوں بیچ مرغا بنائیں گے تاکہ پورا اسکول دیکھ سکے۔ اُس رات بھی خواب آیا اور ایک ہفتے تک میں بخار میں تپتا رہا۔
جب ابّا کو اصل بات پتا چلی تو اُنھوں نے اسکول جاکر پرنسپل کو تمام ماجرا سناکر میرے تعلق سے رعایت حاصل کرلی اور اُس دن کے بعد سے کسی ٹیچر نے مجھ سے کبھی کوئی سوال نہیں پوچھا۔ ایسا نہیں تھا کہ میں پڑھائی میں کمزور تھا مگر پتا نہیں کیوں کسی ٹیچر کے سوال پوچھتے ہی مجھے کیا ہوجاتا تھا، سب کچھ آتے ہوئے بھی میں جواب نہیں دے پاتاتھا۔
ان حادثوں کے بعد قبرستان والے خوابوں نے مجھے پریشان کرنا شروع کردیا۔ امّی کی تدفین آخری موقع تھا جب میں نے قبرستان میں قدم رکھاتھا اور اُس خواب سے دوچار ہوا تھا۔ آج امی کے انتقال کے تقریباً ۲۰ سالوں بعد رحمت کی امّی کے لیے دوبارہ قبرستان جانا تھا۔ مجھے پکّا یقین تھا کہ تدفین کے بعد مجھے وہی خواب دوبارہ دکھائی دےگا ۔

باتوں باتوں میں مَیں نے یہ سارا واقعہ اپنے خاص دوست دنیش کو بتایا تو وہ اپنا پیٹ دبائے کافی دیر تک ہنستا رہا۔
’’دیکھ دنیش ، مذہبی باتوں پر ہنسنا اچھی بات نہیںہے۔ ‘‘ اُس کی ہنسی پر مجھے غصّہ آنے لگا۔
’’سوری ، سوری۔ بھائی میرے معاف کرنا۔ میں مذہبی باتوں پر نہیں بلکہ تیری عقل پر ہنس رہا ہوں۔‘‘ اُس نے اپنی ہنسی پر قابو پاتے ہوئے جواب دیا۔
’’کیوں ؟ میری عقل پر ہنسنے کی ایسی کون سی بات ہے۔‘‘
’’دیکھ بھائی میرے ، تیرا دماغ ایسے ہی بہت چلتا ہے، اوپر سے اب تو تُو سپنے میں بھی دماغ چلانے لگا۔ جب تیرے بھائی نےبول دیا کہ صرف تین ہی سوال آئیں گے تو تُو کائے کو اپنا دماغ چلا رہا ہے۔‘‘
’’میں اپنا دماغ نہیں چلارہا ہوں۔ یہ تو خواب ہے، میں تھوڑے ہی جان بوجھ کر خواب دیکھتا ہوں۔ وہ تو خود بہ خود ہی آجاتا ہے۔‘‘
اچانک دنیش نے ہنسنا بند کردیا اور سنجیدہ ہوکر بولا، ’’بھائی میرے، اگر تیرے سپنے میں ذرا سی بھی سچائی ہے تو پھر یہ تو سوچ ، تیری آنکھ تو چوتھا سوال سننے سے پہلے ہی کھل گئی…‘‘
’’ہاں ، تو…‘‘
’’تو … تیرے کو کیا لگتا ہے ، صرف چار ہی سوال آئیں گے۔ تُو نے تو آگے سنا ہی نہیں۔ سوال ۵ بھی ہوسکتےہیں اور ۵۰ بھی۔ کس کو پتا!!!‘‘
دنیش کی بات سنتےہی میرے ہاتھ پاؤں پھول گئے، پورے بدن میں کپکپی سی دوڑ گئی، ماتھے پر پسینے کی لکیر اُبھر آئیں۔ گھر پہنچ کر میں دنیش کی بات پر سوچنےلگا یقیناً بات میں دم ہے، ورنہ کیونکر منکر نکیر صرف تین ہی سوال پوچھنے قبر میں آئیں گے اور وہ بھی اتنے آسان سے سوال۔

اُس دن کے بعد سے میں نے منکر نکیر کے چوتھے سوال سے بچنے کے لیے مذہب پر مبنی تمام کتابوں کا مطالعہ کرنا شروع کردیا۔ ابّا اور بھائی کے لاکھ سمجھانے پر بھی کہ ’’صرف تین سوال ہی پوچھے جائیں گے‘‘ میں سوالات کی ایک ضخیم ڈائری تیار کرنے لگا۔ جہاں کہیں بھی مجھے اسلامی کوئز کی کتابیں دکھائی دیتیں میں خرید لیتا،چاہے وہ انبیاء کوئز ہو یا سیرت النبی کوئز، خلفائے راشدین پر کوئز ہو یا پھر قرآن کوئز ۔ جس کسی اخبار یا رسالے میں مذہبی سوالات پر معمے شائع ہوتے میں اُنھیں حل کرنے کی کوشش کرتا۔ کسی اسکول ، کالج یا ادارے میں دینیات پر ہونے والے کسی بھی مقابلے کو دیکھنےضرور جاتا۔
اب تک میں نے ۱۵؍ہزار سے بھی زائد سوالات اور اُن کے جوابات ایک ڈائری میں محفوظ کرلیے ہیں۔ پھر بھی میں مطمئن نہیں ہوں۔ چوتھے سوال کا یہی خوف تھا جو مجھے قبرستان جانے سے آج بھی روکتاتھا۔ مجھے خوف تھا کہ قبرستان جانے کے بعد مجھے وہی خواب دوبارہ نہ آجائے، اور اگر کبھی اتفاق سے قبرستان جانا بھی پڑے تو اُس کے بعد آنے والے خواب میں مَیں تین سوال کے علاوہ پوچھے گئے تمام سوالات کے جوابات بغیر کسی ڈر کے صحیح صحیح دے سکوں۔

دفتر میں اپنا کام جلدی سے سمیٹ کر میں نے رحمت کے گھر کی راہ لی، راستے میں ہی شفیق کا فون آیا کہ میت قبرستان کے لیے روانہ ہوچکی ہے اس لیے سیدھے قبرستان آجاؤ۔ راستے بھر موٹر سائیکل پر میں تمام ممکنہ سوالات اور اُن کے جوابات یاد کرتا رہا جیسے قبرستان نہیں بلکہ ایکزام سینٹر امتحان دینے جارہا ہوں۔
قبرستان کے گیٹ کے قریب موٹر سائیکل کھڑی کر میں قبرستان کے گیٹ کو گھورنے لگا۔ مدتوں بعد آج میں نے اس رستے کا رخ کیا تھا۔ گیٹ کے دونوں طرف پھولوں اور چادروں کی چھوٹی چھوٹی کئی دکانیں لگی ہوئی تھیں۔ پھولوں کی خوشبو سے سارا ماحول خوشگوار ہوگیا تھا۔ میری نظر اب بھی قبرستان کے بڑے سے گیٹ پر ٹکی ہوئی تھی کہ تبھی پیچھے سے کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور میں زور سے اچھل پڑا۔ پتا چلا وہ کوئی اور نہیں بلکہ شفیق تھا۔
شفیق بھی میرے اس ڈر سے واقف تھا۔ اُس کے چہرے پر ہلکی سے مسکراہٹ آگئی۔
’’ڈر مت۔ میں ہوں تیرے ساتھ۔ چل ۔‘‘ شفیق نے میری ڈھارس بندھانے کی کوشش کی۔
’’یہاں ساتھ ہے نا ۔ اپنی اپنی قبروں میں تو ہم اکیلے ہی ہوں گے۔‘‘ شفیق میرے گھسے پھٹے جملے پر مسکراتا ہوا میرے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے آگے بڑھنے لگا اور میں نظریں نیچی کر شفیق کے ساتھ ڈرے ڈرے قدموں سے آگے بڑھنے لگا۔
میت نمازِ جنازہ کے لیے تیار کی جاچکی تھی۔ رحمت مجھے اور شفیق کو دیکھتے ہی ہم سے لپٹ کر رو پڑا۔ اُس کی ڈھارس بندھاتے بندھاتے ہماری بھی آنکھوں سے پانی بہہ نکلا۔ بڑی مشکل سے ہم دونوں نے اپنے آپ پر قابو پایا اور رحمت کو تسلّی دینے لگے۔ نمازِ جنازہ کے لیے صفیں تیار ہوچکیں تھیں۔ ہم تینوں کےلیے آگے کی صف میںجگہ بنادی گئی۔ مولانا صاحب نے نمازِ جنازہ کا طریقہ بتانے کے بعد نیت باندھ کر نماز پڑھانی شروع کی۔ مولانا کے پیچھے کھڑے ہوئے میں بھی اُن کی تقلید کرنے لگا لیکن نماز میں پڑھے جانی والی سورۃ کے بجائے میں میت کو غسل دینے کے طریقے اور نمازِ جنازہ پڑھنے کے طریقوں پر مبنی سوالات اور اُن کے جوابات دہرانے لگا کہ نماز میں کتنی سورہ پڑھی جاتی ہیں کتنی بار تکبیر دی جاتی ہےوغیرہ وغیرہ۔اس بیچ نماز کب ختم ہوئی پتہ ہی نہیں چلا۔
میت کو اٹھا کر ہم لوگ قبرستان میں ایک طرف چل پڑے۔ قبرستان دور تک پھیلا ہوا تھا۔ آخری بار جب میں اس قبرستان میں آیا تھا تو یہ کافی کھلا کھلا تھا لیکن اب چھوٹی چھوٹی بہت سی درگاہوں نے کافی جگہ گھیر لی تھیں اور کئی ایک درگاہیں بنائی جارہی تھیں۔ اس علاقے کا یہ اکلوتا قبرستان تھا جہاں مجھے بھی آنا ہے اور اس بات کا مجھے شدت سے احساس تھا کہ یہیں تیسرے سوال کے آگے کی کہانی بھی بڑھے گی۔
ہر کوئی میت کو کاندھا دینے کے لیے آگے کی جانب دوڑ رہا تھا ۔ میں شروعات میں تو میت کے ساتھ ساتھ تھا لیکن میرا دماغ میرے ساتھ نہیں تھا اس لیے میں کب سب سے پیچھے رہ گیا پتا ہی نہیں چلا۔ جب میں اپنے سوالوں اور جوابوں سے باہر نکلا تو احساس ہوا کہ میت تو کب کی قبر تک پہنچ چکی ہے اور اب اُسے اندر اُتارنے کی تیاری کی جارہی ہے۔
جلدی جلدی قبر تک پہنچا تو دیکھا کہ رحمت پہلے ہی قبر کے اندر اُتر چکا ہے۔ تدفین کی تمام رسومات ہمیشہ کی طرح ہونے لگیں اور ہمیشہ کی طرح ہی ہر کوئی اپنا قیمتی تجربہ بگھارنے میں مصروف تھا۔ رحمت نم آنکھوں سے ہر ایک کی باتوں پر بنا کوئی سوال عمل کیے جارہا تھا، لیکن میری سوئی سوال جواب پر ہی اٹکی ہوئی تھی۔ میںتمام لوگوں کی ہدایات کو ازبر کرنے کی کوشش میں لگا ہوا تھا۔ تدفین کی تمام رسومات کی ادائیگی کے بعد گورکن پھاؤڑا لے کر مٹی اندر ڈھکیلنے لگ گیا۔ مٹی برابر کرتے ہوئے آس پاس پڑی ہوئی انسانی ہڈیوں کو بھی دوبارہ قبر میں ڈھکیلنے لگا۔ اُسی بیچ مٹی کے اندر سے ایک ثابت کھوپڑی باہر نکل آئی۔ گورکن نے اُسے بھی احتیاط سے اندر کی جانب سرکا دیا۔ کھوپڑی اور ہڈیاں ملنا عام بات تھی اس لیے کسی کو بھی کوئی تشویش نہ ہوئی۔ تھوڑی مٹی رہ جانے کے بعد اچانک مٹی کے ڈھیر میں سے ایک اور ثابت کھوپڑی نکل آئی۔ گورکن نے اُسے بھی احتیاط سے قبر میں سرکا دیا۔ یہ میرے لیے بڑے تعجب کی بات تھی کہ دو دو ثابت کھوپڑیاں ایک ہی قبر سے کیسے نکل سکتی ہیں۔لیکن شاید ہی کسی اور نے اس بات پر غور کیا ہو۔
رحمت سے وداع ہوتے ہوئے بہت تکلیف ہوئی۔ بیچارہ گلے ملتے ہی دوبارہ بِلک پڑا تھا۔

قبرستان سے لوٹنے کے بعد سے لے کر دیر رات تک جاگنے سے میری آنکھیں درد کرنے لگی تھیں۔ نیند سے بھری آنکھوں پر بار بار پانی چھڑکتے چھڑکتے میں بھی تھک گیا تھا۔ اب نیند کو زیادہ دیر تک روکنا میرے بس کے باہر تھا۔ پھر بھی میں کرسی پر بیٹھے ہوئے نیند سے لڑتا رہا۔

گھوڑا سر پٹ دوڑ رہا تھا، میں بڑی مشکل سے اس کی لگام تھامے ہوئے تھا ۔ میں نے پوری کوشش کی کہ گھوڑے کا بریک دبا دوں لیکن میرا پیر بریک تک پہنچ ہی نہیں رہا تھا، پیچھے سے ابّا نے زور سے ڈانٹا ، ’’میں نے تمھیں بائیک پر بیٹھنے سے منع کیا ہے نا؟ اگر گر گئی تو اپنی ٹانگ تڑوا بیٹھو گے۔‘‘ میں فوراً بائیک سے کود گیا ، لیکن زمین پر پیر پہنچنے کے بجائے میں نیچے کی جانب کسی گہری کھائی میں گرنے لگا۔ کھائی میں گرتے گرتے آخر کار میرے پیر کسی چیز سے ٹکرائے۔ چاروں طرف گھپ اندھیرا تھا، مجھے کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ میرا دم گھٹنے لگا،
میں نے اپنے منہ پر پڑا کپڑا کھینچ کر ایک طرف پھینک دیا اور اٹھ بیٹھا۔ اٹھتے ہی میرا سر کسی لکڑی سے ٹکرا گیا۔ اندھیرا اتنا تھا کہ میں خود کو صرف اپنی سانسوں سے ہی محسوس کرپارہا تھا۔ ہاتھ بڑھا کر آس پاس ٹٹولنا چاہا تو چِپ چپی مٹی ہاتھ سے چپک گئی۔ میں گھبرا کر چاروں طرف ہاتھ پیر مارنے لگا، لیکن چاروں طرف مٹی ہی مٹی تھی۔ میں نے چیخنا چاہا لیکن آواز اتنی ہی نکلی جسے صرف میں ہی سن سکتا تھا۔میرے پیروں کے پاس روشنی کےہالے بننے شروع ہوئے کہ تبھی کسی نے میری پیٹھ پر دھکّا دیا اور میں آگے کی طرف جھک گیا۔ پیچھے مُڑ کر دیکھا تو رحمت کی امّی بڑبڑارہی تھیں۔
’’ناس پیٹے میرے اوپر کیوں بیٹھا ہے۔ چل پَرے کھسک۔‘‘ میں دائیں طرف کھسک گیا ۔ ابھی میں رحمت کی امّی کو دیکھ کر حیران ہوہی رہاتھا کہ پیچھے سے پھر کسی نے مجھے دھّکا دیا۔ میں نے مُڑ کر دیکھا تو ایک باریش بزرگ میرے پیچھے بیٹھے بڑبڑا رہے تھے۔
’’مار ڈالا کمبخت نے۔ میرے اوپر کیا چڑھا بیٹھا ہے؟ چل دفع ہویہاں سے۔‘‘
میری حیرت بڑھتی ہی جارہی تھی۔ میں دوسری جانب کھسک گیا ۔ وہاں بھی مجھے پیچھے سے دھکا لگا اور ایک گنجا شخص گالیاں دیتا ہوا مجھے مکّا دکھانے لگا۔ میری کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہاں کیا ہورہا ہے….
آہستہ آہستہ روشنی کے دونوں ہالے بڑےہونے لگے ۔اس روشنی میں اپنے اطراف دیکھا تو میرے علاوہ اس چھوٹی سی قبر میں متعدد لوگ ایک دوسرے سے بھڑے ہوئے تھے ، ہر کوئی ایک دوسرے پر چلّا رہا تھااور میںخود کو اُن کے بیچ میں پھنسا ہوا محسوس کررہا تھا جیسے میں قبر میں نہیں بلکہ ویرار لوکل میں بیٹھا سفر کر رہاہوں۔
میری نظر مرغوب سر اور مدھوکر سر کی طرف مڑگئی۔ مرغوب سر نے پہلا سوال پوچھا ، لیکن مجھے اُس شور شرابے میں کچھ سنائی نہیں دیا۔ میں نے بغیر سوال سنے ایک ایک کر تینوں سوالوں کے جواب دے دیے۔ تینوں جوابات سن لینے کے باوجود مرغوب سر اور مدھوکر سر مجھ سے لگاتار کچھ نا کچھ پوچھے جا رہے تھے لیکن مجھے کچھ سنائی نہیں دے رہاتھا۔ میری کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں ۔میں بے چینی سے اپنے آس پاس موجود لوگوں کو تکے جارہا تھا۔
اچانک میرے قریب بیٹھے ہوئے رحمت کی امی، بزرگ چاچا اور گنجے آدمی کی شکلیں کھوپڑیوں میں تبدیل ہونے لگیں۔ ایسا محسوس ہونے لگا جیسے یہ کھوپڑیاں وہی کھوپڑیاںہوں جنھیں قبر کی مٹی برابر کرتے وقت گورکن نے دوبارہ قبر میں ڈھکیل دی تھیں


صور احتجاج ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 65

غزل

افضال انصاری
مالیگاؤں،***

پھر سے مقتل کو ہم سجائیں گے
دستِ قاتل کو آزمائیں گے

اک ذرا سا ابھر گئے پھر تو
سر پہ دار و رسن اٹھائیں گے

تیرگی جب بھی بڑھتی جائے گی
کچھ دئیے پھر ابھر کے آئیں گے

اب سمندر سے شرط ٹھہری ہے
کشتیاں پھر سے ہم جلائیں گے

جب بھی وحشت سکون پائے گی
ہم ذرا بیڑیاں ہلائیں گے
:::_

ایک غزل احباب کی نذر

غزل
لذت یوں ترے قرب کی ہم پانے لگے ہیں
اب دل کو تری یادسے بہلانے لگے ہیں

وہ خواب جو تعبیر سے محروم پڑے تھے
آنکھوں میں وہی خواب مری آنے لگے ہیں

طاری ہے جنوں کون سا کچھ ہوش نہیں ہے
میں کیا ہوں مجھے لوگ یہ سمجھانے لگے ہیں

یونہی نہیں یہ چہرے پہ مسکان سجی ہے
ہم اپنی تمناؤں کو دفنانے لگے ہیں

ناجانے میری ذات میں کیا آیا نظرکہ
دیوار سے سر اپنا وہ ٹکرانے لگے ہیں

میں خود میں سمٹ آنے کی کوشش میں لگا ہوں
کچھ لوگ مجھے اور بھی پھیلانے لگے ہیں

تو درس وفا جا کے کسی اور کو دینا
ہم پر تو وفاداری کے ہرجانے لگے ہیں

عرفان ندیم مالیگاؤ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے