شاہ رخ خان نے پدم شری محمد رفیع چوک کاافتتاح کیا تھارفیع صاحب کے پرستاریہاں آکر انھیں خراج عقیدت پیش کرتےہیں

اسپیشل اسٹوری:فرحان حنیف وارثیمغربی باندرہ کےہِل روڈ سے میں جب بھی گذرتا ہوں ،مجھے رفیع صاحب بے ساختہ یاد آجاتے ہیں۔کالج کے دنوں میں میں نے میٹنی شو ز میں ہر وہ فلم دیکھی ہے ،

بلکہ بعض فلمیں تو کئی مرتبہ دیکھی ہیں، جن میں محمد رفیع کے گانے شامل ہوتے تھے ۔ہندوستان اور دنیا کے اس لیجنڈ گلوکارکے انتقال کے بعد ان کی آواز کے قدردانوں کی جانب سے شہری انتظامیہ سےلگاتارمطالبہ کیا جا رہا تھا

کہ باندرہ (مغرب) میں کسی روڈ یا چوک کو محمد رفیع سے منسوب کیا جائے۔آخر کار بی ایم سی نے9؍ اگست 1986کو ایس وی روڈ -ہِل روڈ جنکشن پر ’ پدم شری محمد رفیع چوک ‘ کا قیام کیا ۔

ہر سال شہنشاہ ترنم کےیوم ولادت24؍ دسمبر اور یوم وفات31؍ جولائی کو یہاں صبح سے رات تک ان کے مداحوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔

صرف اتنا ہی نہیں، بلکہ ان کی آواز کے شیدائی سانتا کروزکے جوہو قبرستان میں جا کر ان کی قبر پر فاتحہ اور پھول بھی پیش کرتے ہیں۔اتنی قدر و منزلت اس انسان کا مقدر بنتی ہے جو فرشتہ صفت ہوتا ہے۔رفیع صاحب کو موت کے بعد بھی وہی محبت اور عزت حاصل ہے ،جوانھیں زندگی میں حاصل تھی۔بی جے پی کے ایم ایل اے اور ممبئی کے موجودہ صدر ایڈوکیٹ اشیش شیلار جی نے محمد رفیع سے منسوب اس چوک کی پرانی ڈیزائن کو تبدیل کرکے اسے نیا لُک دینے کی ضرورت محسوس کی۔انھوں نے اس چوک کی از سرِ نو مرمت کی اور 24؍ دسمبر 2016 کو رفیع صاحب کے 92؍ جنم دن کے موقع پر بالی ووڈ کے اسٹار شاہ رخ خان نے اس چوک کا بھومی پوجن اور افتتاح کیا۔پدم شری محمد رفیع چوک کی ڈیزائن کو خاص طور سے رفیع صاحب کی’ گولڈن وائس‘ کو دھیان میں رکھتے ہوئے گولڈن بال کا روپ دیا گیااور اس پر ان کے ایک گیت کا مصرعہ ’ تم مجھے یوں بھُلا نہ پاؤ گے ‘ تحریر کیا گیا ۔ ایڈوکیٹ اشیش شیلارخود بھی رفیع صاحب کےزبردست پرستار ہیں۔وہ گزشتہ گیارہ برسوں سےرفیع صاحب کی یاد میں24؍ دسمبرکو باندرہ کے رنگ شاردا ہال میں میوزیکل پروگرام کا انعقاد کررہے ہیں جس میں ان کی طرف سےکسی ایک گلوکار اور موسیقار کو ایک ایک لاکھ روپئے کا ایوارڈ پیش کیا جاتا ہے۔ اسی طرح مراٹھی کے معروف کوی لوکناتھ یشونت جی کو محمد رفیع سے والہانہ محبت اور عقیدت ہے ۔وہ بتاتے ہیں:’اتنی شکتی ہمیں دینا داتا جیسے مشہور فلمی بھجن کے گیت کارابھیلاش جی ایک مرتبہ تھانے کے ایک ہوٹل میں گانا لکھنے بیٹھے تھے ۔ میں ناگپور سے ممبئی آیا تھااور اس مرتبہ ولے پارلے میں ٹھہرا تھا۔ اس دورا ن ایک دن طے شدہ پروگرام کے مطابق میں ابھیلاش جی سے ملنے تھانے پہنچا ۔انھوں نے مجھے بتایا کہ دوسرے دن محمد رفیع سے ملنے ان کے گھر جانا ہے ۔مجھے آج بھی یاد ہے کہ میں خوشی کے سبب رات بھرٹھیک سے سو نہیں پایا تھا۔سویرے نہا دھو کر جلدی تیار ہوگیا تھا کہ آج اپنے من پسند سنگر سے ملاقات کرنی ہے۔ناشتے کےبعد جب میںنے ٹائمس آف انڈیا پڑھنے کے لیے اٹھایا تو پیروں کے نیچے سے زمین کھسک گئی ۔رفیع صاحب کی موت کی خبر چھپی تھی ۔میں نے فون کرکے ابھیلا ش جی کو یہ خبر سنائی تو وہ بھی چُپ ہوگئے ۔‘ وہ بتاتے ہیں :’ میں باندرہ رفیع صاحب کے گھر پہنچا ۔یہ اتفاق دیکھئے کہاں ان سے ملنا طےتھا اور کہاں مجھے ان کے جنازے میںشرکت کر نی پڑی ۔ اس روزموسلا دھار بار ش ہو رہی تھی ، مگر اس کے باوجودبڑی تعدادمیں ان کے چاہنے والے وہاں موجود تھے ۔‘ محمد رفیع کے آخری سفر میں دس ہزار سے زائد لوگوں نے شرکت کی تھی ۔بھارت سرکار نے دو روزہ قومی سوگ کا اعلان کیا تھا۔ بعد میں ان کی یاد میں ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا گیا۔ لوکناتھ یشونت جی کا یہ معمول ہے کہ وہ جب ناگپور سے ممبئی آتے ہیں تو ایک دن باندرہ جا کر محمد رفیع کی رہائش گاہ کا درشن ضرور کرتے ہیں ۔ ایڈوکیٹ اشیش شیلار نے ایک مرتبہ لوکناتھ یشونت جی کواپنے پروگرام کے دوران اسٹیج پر مدعو کیا اور یہ بات حاضرین محفل کے گوش گذار کی تو وہاں موجود محمد رفیع کی بیٹیوں نے اسٹیج پر آکے ان کا استقبال کیا تھا۔لوکناتھ یشونت مسکراتے ہوئے بتاتے ہیں :’ شیلار جی اکثر مجھ سے کہتے ہیںکہ محمد رفیع کے دو چاہنے والے ہیں ، ایک تم اور ایک میں ۔‘لوکناتھ یشونت نے بتایا کہ ناگپور میں بھی محمد رفیع سے ایک چوک منسوب ہے۔محمد رفیع امرتسر( پنجاب ) سے 27؍سے 30؍ کلو میٹر شمال کی جانب واقع ایک گاؤں کوٹلہ سلطان سنگھ میں24؍ دسمبر 1924کوایک جاٹ خاندان میں حاجی علی محمد اور اللہ رکھی کے یہاں تولد ہوئے ۔محمد رفیع کے بھائیوں اور بہنوں کے نام چراغ بی بی ، ریشما بی بی ، محمد شفیع،محمد دین ،محمد اسماعیل ، محمد ابراہیم ، (محمد رفیع) اور محمد صدیق ہیں ۔رفیع صاحب کو گھر میں سب پیار سے فیکو بلاتے تھے ۔اسی گاؤ ں میں ان کی ابتدائی تعلیم چوتھی جماعت تک ہوئی ۔1934میں یہ خاندان تلاش معاش کے سلسلے میں 67؍ کلو میٹر کے فاصلے پر لاہور منتقل ہوگیا۔ان کے والد اور بھائی حاجی محمد دین نےبھاٹی گیٹ کے نور محلہ میں نائی کی دکان شروع کی، جہاں محمد رفیع کا بیشتر وقت گزرتا ۔ادھر سے ایک فقیر روزانہ جاتا تھا۔اس کا دست سوال دراز کرنے کا طریقہ یہ تھاکہ وہ کچھ گاتے ہوئے پیسے مانگتا تھا۔اس کی آواز میں ایک درد تھا جس نے محمد رفیع کے دل کے تار کو چھیڑ دیا۔فقیر کا جب بھی وہاں سے گذر ہوتا ، وہ اس کے پیچھے دور تک جاتے اور اس کے گائیکی کے انداز کا باریکی سے مشاہدہ کرتے ۔تنہائی میں اس کی نقل اتارتے ۔محمد رفیع کی دلکش آوازنے دکان میں آنے والے گاہکوں کو اس قدر متاثر کیا کہ وہ دکان میں ان کی آواز سننے کی خاطر آنے لگے ۔ محمد رفیع نےکیرانہ گھرانے کے استاد عبدالواحد خان اورپٹیالہ گھرانے کے استاد بڑے غلام علی خان کے علاوہ آل انڈیا ریڈیو لاہور کے پروڈیوسراستاد فیروز نظامی سے موسیقی کا درس لیا ۔ انھوں نے پنڈت جیون لال مٹو سے کلاسیکی موسیقی کے راگ شاستراور پنجابی لوک راگ پہاڑی، بھیروی ، بسنت اورملہارمیں مہارت حاصل کی ۔ رفیع صاحب کی فن ِ موسیقی سے واقفیت اور ریاضت کا سلسلہ اس طرح آگے بڑھا۔ریڈیو لاہور کے پروگرام میں کندن لال سہگل کی شرکت ، پروگرام کے دوران بجلی کا چلے جانا، سہگل صاحب کا گلوکاری سے منع کرنا ،13؍ سالہ محمد رفیع کا وہاں اپنی گائیکی کا مظاہرہ کرنا ،اور معروف موسیقار شیام سندر کا ان کی گلوکاری سے متاثر ہونا ، یہ وہ باتیں ہیں جن سے رفیع صاحب کے مداح اچھی طرح واقف ہیں۔موسیقار شیام سندر نے ہی28؍ فروری 1941کو انھیں پنجابی فلم ’ گل بلوچ ‘ میں زینت بیگم کے ساتھ’سونیے نی ، ہیریاں نی ‘ گانا صدابند کرنے کا موقع دیا ۔ان کابطور پلے بیک سنگر یہ پہلا گاناتھا۔مشہورہے کہ انھوں نے ممبئی آمد سے قبل لکھنٔوجا کر نوشاد صاحب کےوالدسے ملاقات کی تھی اوران سے ایک سفارشی خط لکھوایا تھا۔ممبئی آمد کےبعد نوشادعلی نے انھیں 1944میںاے آر کاردار کی فلم ’ پہلے آپ ‘ کے گیت ’ ہندوستان کے ہم ہیں ‘میں بطور کورس بریک دیا ۔1945وہ سال ہے جس میں رفیع صاحب کی کامیابی کا سفر شروع ہو اجو ان کی زندگی کے آخری دن تک جاری رہا ۔انھیں موسیقار شیام سندر نے ہندی فلم ’ گاؤں کی گوری ‘ میںپہلی مرتبہ جی ایم درّانی کے ساتھ جوڑی (ڈُواِٹ)میں ’ اجی دل ہو قابو میں ، تو دلدار کی ایسی تیسی ‘ نغمے کی صدا بندی کا موقع دیا ۔محمد رفیع کو صرف ایک سولو گانے کا انتظارتھا اور آخر کار وہ دن آہی گیا۔موسیقار نوشاد علی نے 1946میںان سے محبوب خان کی فلم ’ انمول گھڑی ‘کا نغمہ ’ تیرا کھلونا ٹوٹا بالک ‘سولو( اکیلے ) ریکارڈ کروایااور پھر محمد رفیع فلم سازوں ، ہدایت کاروںاور موسیقاروں کی پہلی پسند بن گئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے