دیارِ ادیب مالیگاوں سیف نیوز ادبی پوسٹ

ہندوستانی زبان میں10؍ ہزار بند اور18 ؍ جلدوں پر مشتمل ہے ’ ایشور پریرنا‘
پنڈت مصطفیٰ عارف نے قرآن مجید کی آیتوں کے مفاہیم کو حمد کے قالب میں ڈھالا ہے

اسپیشل اسٹوری: فرحان حنیف وارثی

مدھیہ پردیش کے شہر رتلام کے ساکن پنڈت مصطفیٰ عارف جب14 ؍ سال کے تھے ، انھوں نے ہندی میں بچوں کا اخبار’ اُپہار‘ جاری کیا تھا۔1963 -1964میں نکلنے والے دو صفحات کے اس اخبار میں وہ بچوں کی دلچسپی کی تخلیقات شائع کرتے تھے۔ان کے والد اکبر علی عارف مدھیہ پردیش کانگریس کے جنرل سیکریٹری کے علاوہ رتلام کے ایم ایل اے ، اور مسلسل پندرہ برسوں تک میئر رہے تھے۔پنڈت مصطفیٰ عارف نےبڑے ہونے کے بعد میدان صحافت میں قدم رکھا اور فری پریس جنرل( انگلش ڈیلی) ، بھاسکر (انگلش ڈیلی) اورچوتھا سنسار( ہندی ڈیلی)وغیرہ اخبارات سے منسلک رہے ۔انھوں نے ایک ہندی شامنامہ’ امر شیام‘ بھی نکالا تھا۔

دہلی میں جب اٹل بہاری واجپئی کی سرکار قائم ہوئی تو انھیں’ مولانا ابوالکلام آزاد فاؤنڈیشن ‘ سے وابستگی کا موقع ملا۔عباس فقیہہ اس فاؤنڈیشن کے چیئرمین تھےاور پنڈت مصطفیٰ عارف کوہندی اور اردو میں نکلنے والے رسالے’ سدبھاونا سندیش‘ کاچیف ایڈیٹربنایا گیا تھا۔وہ بی جے پی دہلی کے اقلیتی سیل میں تنویر احمد کے ساتھ میڈیا کے صلاح کار بھی رہے۔آر ایس ایس نے جب ’ مسلم راشٹریہ منچ ‘کی بنیاد رکھی اور ایک ماہنامہ ’ گلستان مادر وطن ‘ نکالا تو انھیں اس کا فاؤنڈر ایڈیٹر بنایاگیا ۔20؍ دسمبر 2002کو پارلیمنٹ ہاؤس میں سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نےپنڈت مصطفیٰ عارف کی نظموں کا مجموعہ ’ یہ دل مانگے مور‘ کی رسم اجراء کی تھی ۔انھوں نے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کی شان میں15 ؍ اگست2003 سے 25 دسمبر 2003تک، یعنی 131؍ دن تک، روزانہ ایک نظم لکھی تھی ،جو کتابی شکل میں ’ دھرتی پر ہے اٹل مہان ‘ کے عنوان سے شائع ہوئی تھی۔ میدان صحافت میں اپنے قلم کی چھاپ چھوڑنے والے پنڈت مصطفیٰ عارف کا تعلق بوہرہ سماج سے ہے۔ وہ ایک بار پھر خبروں میں ہیں ۔اس بار وہ بالکل منفرد کام کی وجہ سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں ۔


پنڈت مصطفیٰ عارف نے قرآن مجید سے متاثر ہو کر اٹھارہ جلدوں اور دس ہزار بند پر مشتمل ہندوستانی زبان میں حمد لکھی ہے جس کا عنوان ’ ایشور پریرنا ‘ ہے۔وہ روزانہ صبح اس طویل حمد کے چندبند اپنے یو ٹیوب چینل پر اپ لوڈ کرتے ہیں ۔ان کا پنڈت مصطفیٰ عارف کے نام سے ایک یو ٹیوب چینل ہے۔وہ بتاتےہیں :’قرآن مجید میں6666؍ آیتیں ہیں ، میں نے ان آیتوں کے مفاہیم کو ہندوستانی زبان میں حمد کے قالب میں ڈھالا ہےجو ایک منفرد کام ہے، اور مجھ سے پہلے اس طرح کاکام اور کسی نے نہیں کیا ہے۔مجھے خوشی ہے کہ میرے اس کام کو اللہ نے قبول کیا ہے، کیونکہ اللہ کی مدد کے بغیر میں یہ کام نہیں کر سکتا تھا۔6 ؍جون 2008کو میں فجرکی نماز ادا کرکے بیٹھا تھا، مجھے ایسا محسوس ہو اکہ جیسے کوئی کچھ کہہ رہا ہے۔اس وقت چار لائنیں ہوئیں ، میں نے فوراً اسے لکھ لیا ۔ کوئی کہہ رہا تھا : ’میری راہ پر چلتا چل/میری عبادت کرتا چل/اور مجھ سے ہی ڈرتا چل/مجھ سے ہی محبت کرتا چل۔‘


پنڈت مصطفیٰ عارف کی حمد کو سننے کے بعد امیتابھ بچن ، قادر خان، آشا بھوسلے،گاندھی جی کے پر پوتے ترون گاندھی ،سعودی عرب کے شیخ حکیم اور کناڈا کی جامع مسجد کے پیش امام نے اپنے پیغامات میں ان کے اس کام کی ستائش کی تھی۔امیتابھ بچن نے 20؍جون 2010؍ کوٹوئٹر پر اپنا پیغام بھیجا تھا۔کناڈا کی جامع مسجد کے پیش امام نے لکھا تھا کہ آج جمعہ کی نماز کے بعد میں آپ کی کامیابی کے لیے دعا کرنے والا ہوں۔انھوں نے بتایا :’ بوہرہ سماج میں جو دینی کام ہوتا ہے ، اس کے لیے سیدنا صاحب کی رضا لی جاتی ہے۔ایک دن مجھے سیدنا صاحب کے دیوان شیخ حاتم علی کا فون آیا کہ مولا آپ کو یاد کر رہے ہیں اور آپ کو پرسوں ساڑھے دس بجے کھنڈالہ آنا ہے۔میری یہ بھی خوش نصیبی تھی ۔سیدنا صاحب سے جب ملاقات ہوئی تو میں نے انھیں اس کام کی جانکاری دی اور انھوں نے پروجیکٹ کی کامیابی کے لیے دعاکی۔‘
پنڈت مصطفیٰ عارف کو ’پنڈت ‘ کا خطاب کیسے ملا؟ انھوں نے جواب دیا:’میں اوما بھارتی کی سرکار میں اجین کی مہاکالیشور مندر کی انتظامیہ کمیٹی کا رکن رہا ہوں۔ بابا بال ہنومان مندر سے بھی وابستگی رہی ہے۔بابا بال ہنومان مندر میں بہت سے مسلمان بھی جاتے ہیں۔ہنومان جینتی کے موقع پر مسلمان بھی اپنے گھروں میں لائٹ لگاتے ہیں۔یہ اجین کا اپنا ایک کلچر ہے ۔1992کے کمبھ میلے میں آل انڈیا برہمن سماج نے میری قومی یکجہتی کے کاموں کو دیکھتے ہوئے اپنی سبھا میں شنکر اچاریہ اور اگنی اکھاڑے کے بڑے پرکاش آنند جی مہاراج کی موجودگی میں ’ پنڈت‘ اور’ پرشورام شری‘جیسے خطابات سے نوازا تھا۔

میں اسے بھی اللہ کی مصلحت سمجھتا ہوں ، کیونکہ نام کے ساتھ پنڈت لگنے سے میری بات برادران وطن دھیان سے سنتے ہیں ۔‘ وہ بتاتے ہیں :’ میں 1980سے اس کام کی کوشش کر رہا تھا ، لیکن ایک بھی لائن نہیں لکھ پا رہا تھا۔میرے ایسا ماننا ہے کہ اللہ کا کام اللہ کی مرضی سے ہوتا ہے۔کوئی کتنا بھی دماغ کا استعمال کرے ،اگر اللہ کی مرضی نہیں ہے تو وہ کوئی کام نہیں کر سکتا ۔میںنے 4؍اپریل 2008کو یہ کام شروع کیا تھا اور یکم ؍ فروری 2017کو اسے مکمل کیا ۔‘ پنڈت مصطفیٰ عارف اپنے اس کام کو شائع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس کے لیے انھیں اعانت کی ضرورت ہے ۔ان کی خواہش ہے کہ اس کام سے جو آمدنی ہو ، اسے قرآن مجید کی تعلیم پر ہی خرچ کیا جائے اور جو افراد قرآن مجید پڑھنا نہیں جانتے ہیں ،انھیں قرآن مجید کی تعلیم دی جائے۔


مکالماتی مائکروف
مائکروف #
مصنفین: تحسین گیلانی اور منیر احمد فردوس

|||||||||||||||||||||||| ایک بے ساختہ مکالمہ |||||||||||||||||||||

تحسین:
….. سوال یہ ہے کہ ایک تخلیق کار نیا موضوع کہاں سے لے؟

منیر:
ایک تخلیق کار موضوعات اپنے منظر نامے سے ہی لیتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ تخلیق کار کا تخلیقی رویہ اور اس کا اچھوتا اسلوب ہی ایک پرانے موضوع کو نیا بنا دیتا ہے۔

تحسین:
اسی موضوع کو ہی موڈیفائی کیا ہے۔ یہ فرائڈ سوسیور اور درکھیم کی تھیوری کاجواب بھی ہے اور اس کی تشریح بھی؛ کم الفاظ میں یہ تینوں ساختیات کے بنیاد گزار تھے۔ اسے اپنی کتاب میں شامل کروں گا مگر نظر ثانی کے بعد، ابھی تو جیسا لکھا بھیج دیا۔

منیر:
میں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ مکالمہ بہت اچھا ہے.
میرا مشورہ صرف اتنا تھا کہ اس مکالمے کو آسان سے مشکل کی طرف سفر کرنا چاہئے، تاکہ نیا لکھنے والا بھی اس سے فائدہ اٹھا سکے۔

تحسین:
ہاہاہا عام قاری کی چنتا کیوں کرتے ہیں بھائی؟ اسے اگر سمجھنا ہے تو ان تھیوریز کو پڑھے۔ میں کوشش کرتا ہوں کہ ذرا سہل بناؤں۔ ویسے آسان بھاشا میں لکھنا میرے لیے مشکل ہے ۔۔۔

منیر:
عام قاری نہیں… لکھنے والے نئے تخلیق کاروں کی بات کر رہا ہوں، تاکہ تربیت کا عمل قدرے آسان ہو جائے۔

تحسین: ہاں بہتر؛ کوشش کرتا ہوں، ناکام رہا تو معاف کیجئیے گا۔

منیر:
آپ ناکام تو خیر نہیں ہو سکتے البتہ آپ کا مجھ سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے، کیونکہ آپ میری بات یا مشورے کو کلی یا جزوی طور پر رد کرنے کا حق رکھتے ہیں۔

تحسین:
ہاہاہا …… اب مابعد جدیدی مکالمہ تو ایسا ہی ہو گا نا!؟

منیر:
مکالمہ جدیدی ہو یا ما بعد جدیدی ۔ ۔ ۔ اسے اپنے ہی انداز اور زبان کا لباس پہنانا چاہئے۔ تاکہ مشکل سے مشکل بات بھی آسان اور عام فہم بن جائے۔ جو بات بے ساختگی اور اپنی اصل زبان میں ہوتی ہے وہی خالص مکالمہ ہوتا ہے۔

تحسین:
ہاں لیکن تھیوری کی زبان اتنی آسان نہیں ہو سکتی ذرا قاری کو بھی اپنی سطح سے اٹھنا ہو گا۔

منیر:
میں قاری کی بات ہی نہیں کر رہا… میں ان تخلیق کاروں کی بات کر رہا ہوں جو نووارد ہوتے اور سیکھنا چاہتے ہیں۔

تحسین:
نیا تخلیق کار بھی تو قاری ہی ہے، ایک عام قاری۔

منیر:
جس طرح نظم کی زبان الگ، ناول کی زبان الگ اور افسانے کی زبان الگ ہوتی ہے اسی طرح مکالمے کی بھی اپنی زبان ہوتی ہے
جب دو تخلیق کار آپس میں بے ساختہ مکالمہ کریں گے تو ان کی زبان ادبی ہونے کے ساتھ ساتھ تخلیقی بھی ہو گی مگر مکالمے میں دانشوری نہیں آنی چاہے۔

تحسین:
ہاں لیکن موضوع کی گیرائی پر منحصر ہے نا کہ ہم اگر درکھیم، فوکو ، سوسیور ، جونتھن کلر اور فرائڈ کی بات کریں گے تو ان کی کہی باتوں کو کتنا بھی سہل کر لیں عام آدمی کو کچھ کھٹنائیاں تو آئیں گی۔

منیر:
ہاں آپ کی بات میں بھی وزن ہے۔ دیکھیں ۔ ۔ ۔ یہ جو ہم اس وقت بات چیت کر رہے ہیں، یہ بھی ایک بے ساختہ مکالمہ ہی ہے۔ اور مکالمے سے ہی کسی نتیجے پر پہنچا جا سکتا ہے۔
ایسا کرتے ہیں اس ہونے والے مکالمے کو کسی اوپن فورم پر لگاتے ہیں اور دوستوں کی رائے جان لیتے ہیں۔
کیا خیال ہے ۔ ۔ ۔؟

تحسین:
جی ٹھیک ہے۔ آپ اس مکالمے کو متشکل کریں تاکہ اہلِ فکر و نظر کی بہتر رائے لی جائے ۔ تجربہ ہی سہی!
__ "پیشکش :موت ڈاٹ کام مالیگاوں بھارت

ایک تازہ غزل پیش ہے_ ग़ज़ल

دستِ طلب دراز ہے کس کا نہ دیکھیے
دل اپنا دیکھیے میاں، کاسہ نہ دیکھیے

آنکھوں کے ساتھ روح بھی سلگے گی صبح تک
بجھتے دیے کی لو کو زیادہ نہ دیکھیے

یہ جان لیں وہ پیڑ ہیں سایہ فروش پیڑ
شاخوں پہ جن کی کوئی پرندہ نہ دیکھیے

اب کیا جو آرہا ہوں ہراک شخص میں نظر
میں نے کہا بھی تھا مجھے اتنا نہ دیکھیے

جائیں مگر پھر ایسے کہ کچھ چھوڑ کر نہ جائیں
یعنی ہمیں پلٹ کے دوبارہ نہ دیکھیے

دریا کے زخم جذب نہ ہوجائیں روح میں
کچھ دور بیٹھیے، تہِ دریا نہ دیکھیے

آپ اپنے سورجوں کے سجائیں نقوش و رنگ
میں کیسے بن رہا ہوں ستارہ نہ دیکھیے

کچھ خواب مستقل یہاں محوِ طواف ہیں
آنکھیں ہماری دیکھ کے دنیا نہ دیکھیے

__ عزیز نبیل
…….

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے