مسلمانوں میں اصلاحِ معاشرہ کی مہم پر چند باتیںاتواریہ / شکیل رشید مجھے اصلاحِ معاشرہ کے طریقۂ کار سے ہمیشہ سے اختلاف رہا ہے ۔

شاید اسی لیے جب جمعیتہ علماء مہاراشٹرکے صدر حافظ ندیم صدیقی نے مجھ سے کہا کہ جلد ہی ریاست میں اصلاحِ معاشرہ کی چالیس روزہ مہم شروع ہو رہی ہے ، تو میں نے اس پر کوئی زیادہ توجہ نہیں دی ، نہ ہی کسی طرح کے ردِ عمل ہی کا اظہار کیا ۔ ایک وضاحت پہلے ہی کر دوں

تو بہتر ہوگا ، میں قوم کی اصلاح کا مخالف نہیں ہوں ۔ سچ کہیں تو اس وقت قوم کو اصلاح کی ضرورت ، پہلے کے مقابلے کہیں زیادہ ہے ۔ اگر ہم اپنے آس پاس نظر ڈالیں تو دیکھیں گے کہ قوم کی حالت کس قدر دگرگوں ہے ! کون سا وہ جرم ، گناہ ، بدعت اور شرکیہ رسومات مسلمانوں میں

نہیں ہیں ، جن سے اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے منع کیا ہے ۔ بلکہ آج تو یہ قوم چوری ، جھوٹ ، بڑوں کی بے ادبی ، والدین پر ظلم ، چھوٹوں کی حق تلفی میں سب سے آگے بڑھ گئی ہے ۔ مرے پر سو درّے کے مصداق نشے کی لت نوجوان نسل کی رگ رگ میں سرایت کر گئی ہے اور مسلمان خود نشے کا انتہائی حرام کاروبار کرنے لگے ہیں ۔ ہم میں دو برائیاں مزید شدت کے ساتھ ابھر آئی ہیں ، ایک تو قتل کی

وارداتوں میں ملوث ہونا اور دوسرے ’ ارتداد ‘ کا شکار ہونا ۔ مسلم بچیوں میں یہ مرض بہت شدید ہے ، اس کی ایک وجہ والدین کی بےحسی اور موبائل کا بےجا استعمال ہے ۔ تو جیسا کہ میں نے کہا ، مجھے اصلاحِ معاشرہ سے اختلاف نہیں ہے ، مجھے اختلاف اصلاحِ معاشرہ کی مہمات یا تحریکات کے ’ رسمی ‘ ہونے سے ہے ۔ مجمع کے سامنے اصلاحی تقریر کر دینا ، اور فرض کی ادائیگی کا احساس

کرتے ہوئے کسی دوسرے علاقے میں تقریر کے لیے چلے جانا ، برسہا برس سے یہی طریقۂ کار ، ایسی مہمات اور تحریکات کا رہا ہے ۔ اب یہ طریقۂ آؤٹ ڈیٹیڈ ،پُرانا ہوگیا ہے ۔ موبائل دیکھنے والی نوجوان نسل اصلاحی تقریر سننے کے لیے کہیں بیٹھنا نہیں چاہتی ، اور اگر مار پیٹ کر اسے بیٹھا بھی دیا جائے تو وہ سننے سے زیادہ والدین کو کوسنےدینے میں وقت لگا دیتی ہے ۔ حافظ ندیم صدیقی نے جب اپنی بات کئی بار دوہرائی تب یہ تمام باتیں میں نے ان کے سامنے رکھ دیں ۔ انہوں نے جو کچھ بتایا ، اس سے پتہ چلا کہ ، جدید اور قدیم دونوں طریقۂ کار کے امتزاج سے ، اصلاحِ معاشرہ کی مہم کو ایک الگ شکل دی گئی ہے ۔ اب ہوتا یہ ہے کہ علماء

جو بیرون سے آتے ہیں ، وہ اصلاحی تقریر کرتے ہیں ، لیکن اس کے ساتھ ہی جس علاقہ میں ان کے بیانات ہوتے ہیں ، وہاں کے علماء سرگرم ہوجاتے ہیں ، اور اصلاحِ معاشرہ کی مکمل مدت تک وہ گھر گھر جاکر لوگوں کو اچھائی کی طرف بلاتے ہیں ۔ خواتین کے درمیان باتیں ہوتی ہیں ، بچوں اور نوجوانوں پر توجہ دی جاتی ہے ، رسومات سے روکا جاتا ہے ، نشہ کی خرابیان بتائی جاتی ہیں ، موبائل کو دن رات سر پر سوار رکھنے کے نقصانات سامنے رکھے جاتے ہیں اور والدین کو بےحسی کے حصار سے باہر نکلنے کی اور بچوں پر دھیان اور توجہ دینے کی تلقین کی جاتی ہے ۔ کئی ہدف ہوتے ہیں ، ایک تو گھر کی اصلاحِ ، پھر عوامی اصلاح اور فرد کی اصلاح ۔ یقیناً یہ تمام اصلاحی اہداف اگر پورے ہوئے ، تو معاشرہ کی اصلاح کا خواب پورا ہو سکتا ہے ۔ یہ ایک عملی طریقۂ کار ہے ، تقریر کے ساتھ ساتھ گھر گھر جانا اور فرداً فرداً لوگوں سے ملنا اور انہیں اچھائی کی طرف بلانا ۔ اس کام کے اچھے نتائج سامنے آ بھی رہے ہیں ۔ اس میں جو علماء لگے ہوئے ہیں ، ان کی آمد دارالعلوم دیوبند سے ہوئی ہے ، لیکن ان کے ساتھ سیکڑوں مقامی علماء ہیں ۔ اللہ کرے یہ چالیس روزہ اصلاحی مہم کامیاب ہو ۔ آج مسلمانوں کی ہر روحانی بیماری کا ، اور گناہوں میں لتھ پتھ زندگی گذارنے کی لَت کا علاج اصلاح ہی ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے