لکھنا علم کی حفاظت کا بنیادی ذریعہ ہے! مولانا محمد ادریس عقیل ملّی

اپنے مقصد کے حصول کے لیے محنت تابناک مستقبل کی علامت!مولانا محمدعمرین محفوظ رحمانی
معہد ملت میں طلبہ کے لیے ترغیبی پروگرام کامیابی سے ہمکنار

مؤرخہ ۱۰؍ نومبر صبح گیارہ بجے مہاراشٹر کی عظیم وقدیم درسگاہ معہد ملت میں ایک شاندار ترغیبی اجلاس کا انعقاد ہوا، جامعہ کے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد ادریس عقیل ملی قاسمی صاحب کی صدارت میں منعقد ہونے والے اس اجلاس کی شروعات مولانا جنید عامر ملی (استاذ معہد ملت) کی تلاوت کلام سے پاک سے ہوئی، معہد کے ایک طالب علم حافظ عبداللہ نے نعت پاک پیش کی، اس کے بعد تقاریرکا سلسلہ شروع ہوا۔ معہد ملت کے مؤقر استاذ حضرت مولانا مفتی محمد حسنین محفوظ نعمانی صاحب

نے اپنے فکر انگیز خطاب میں طلبہ کو حصول علم کی طرف رغبت دلائی، اور بتایا کہ علم اللہ کی بیش قیمت نعمت ہے، اور آپ کا دل اس کے لیے ظرف اور برتن کی مانند ہے، آپ پر لازم ہے کہ اس میں علم انڈیلنے سے پہلے اسے خوب صاف ستھرا کرلیں، تاکہ اس میں ڈالی جانے والی چیز سے صاف رہ سکے۔ اکابر کی طالب علمانہ زندگی بیان کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ خطیب بغدادی نے اپنے شیخ اسماعیل حیلی کے سامنے بخاری شریف تین دن میں ختم کی، امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میرے بیٹےکا انتقال ہوا، مگر میں اس خوف

سے جنازے میں شریک نہ ہوا کہ کہیں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا کوئی درس مجھ سے چھوٹ نہ جائے۔انہوں نے وقت کی قدر کرنے کی تاکید کی، اس ضمن میں بتایا کہ داؤد طائی رحمۃ اللہ علیہ ستو پی لیتے تھے، مگر کبھی روٹی نہیں کھاتے تھے، پوچھنے پرجواب دیاکہ جتنی دیر میں روٹی کھائی جاتی ہے میں پچاس آیتیں تلاوت کرلیتا ہوں، انہوں نے طلبہ کو سمجھاتے ہوئے کہا کہ اللہ نے آپ کو علم حاصل کرنے کا جو موقع دیا ہے اس کی قدر کریں، گذشتہ دنوں تعلیمی اوقات میں قدرے اضافہ کیا گیا، یہ آپ کو ناگوار نہیں گذرنا

چاہیے، بلکہ آپ اسے اپنے حق میں مفید خیال کریں، ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ میں نے ہریسہ برسوں نہیں کھایا، جب کہ وہ میری مرغوب غذا تھی، اور ایسا میں نے صرف اس لیے کیا کہ وہ میرے درس کے اوقات میں فروخت ہوتا تھا۔ مفتی صاحب کے بعد معہد ملت کے استاذ مفتی عبداللہ ثاقب صاحب نے اپنے خطاب میںایک مضمون کے حوالے سے بتایا کہ ہندوستان میں ہر سال دس ہزار طلبہ فارغ ہوتے ہیں، لیکن زمانے کی بھیڑ میں ایسے گم

ہوجاتے ہیں کہ ڈھونڈنے سے نہیں ملتے، انہوں نے بتایا کہ صرف نبوت کا دروازہ بند ہوا ہے، علم اور ولایت کے دروازے کھلے ہیں، اگر آپ محنت کریں تو اب بھی ہمارے درمیان مولانا ابو الحسن علی میاں ندوی اور مولانا الیاس صاحب جیسے افراد پیدا ہوسکتے ہیں، ہمیں چاہیے کہ ہم ان کے حالات کو پڑھیں اور ان کی عادات کو اپنائیں، انہوں نے مذاکرے کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ آج کل طلبہ اس سلسلے میں بڑی کوتاہی کررہے ہیں، جب کہ استعداد کی پختگی میں مذاکرے کا بڑا دخل ہے، اس کے علاوہ انہوں نے سردی کی راتوں کو غنیمت سمجھ کر مطالعے اور

مذاکرے میں گذارنے کی ترغیب دی، استاذ کی عظمت بیان کرتے ہوئے مولانا علی میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ کا تاریخی جملہ سنایا کہ استاذ اور مرشد سے استفادے کی پہلی شرط عظمت ہے۔ آخر میں مہتمم جامعہ حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب نے اپنے خطاب میں طلبہ کو گراں قدر نصائح فرمائیں، اور بتایا کہ معہد ملت کے ششماہی امتحان میں آپ حضرات کامیاب ہوگئے، لیکن اگر آپ نے اساتذہ کی قدر نہ کی تو آپ معہد ملت کے امتحان میں کامیاب ہوں تو ہوں، زندگی کے امتحان میں کبھی کامیاب اور کامران نہیں ہوسکتے، زندگی کے امتحان

میں وہی انسان کامیاب ہوتا ہے جو اچھے عمل اورکردار کے ساتھ زندگی گذارتا ہے،انہوں نے علم پر عمل کرنے کی ترغیب دی اورمحنت کرنے پر زور دیا اور بتایا کہ کسی شاگرد نے رخصت ہوتے ہوئے اپنے استاذ سے نصیحت کی درخواست کی تو انہوں نے صرف ایک جملہ ارشاد فرمایا: ”من ساوی یوماہ فھو في الخسران“ یعنی جس کے دو دن برابر ہوجائیں، اور دن کی بنیاد پر اس کے علم، عمل اور تقوی میں اضافہ نہ ہو تو وہ نقصان میں ہے، آج آپ جہاں تک پہونچے، اگرکل اس سے آگے نہیں بڑھ رہے ہیں اورآج آپ کی علم کی سطح جتنی

ہے، اتنی ہی کل ہو تو آپ خسارے میں ہیں، پڑھنا آپ کی مجبوری نہیں ہے، پڑھنا آپ کا شوق ہے، پڑھنا آپ کی دنیا نہیں ہے، پڑھنا آپ کی آخرت ہے، آپ اس لیے پڑھ رہے ہیں کہ آپ پر جنت کے دروازے کھل جائیں، کسی کے دباؤ اور جبر سے محنت مت کیجیے، دل کے جذبے اور شوق سے محنت کیجیے، اپنی ایک منزل اور نشانہ مقرر کیجیے، پھر اس مطلوب کے لیے محنت کا مزاج بنائیے، ہمیشہ یاد رکھیے کہ اگر آج آپ کمزوری، کمی، کوتاہی، سستی، غفلت اور لا پرواہی کے ساتھ وقت گذاریں گے تو آنے والا کل آپ کے لیے خوشگوار نہیں ہوگا، مستقبل ان لوگوں کا تابناک ہوتا ہے جو محنت کے راستے پر چلتے ہیں۔اس کے بعد

آپ نے طلبہ کو کچھ نئے قوانین سے آگاہ کیا، آپ نے مقامی طلبہ کو نماز کی تاکید کی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا کہ جس کی نماز اچھی ہو اس کے دوسرے احوال بھی بہتر ہوں گے، اور جس کی نماز میں کوتاہی ہو وہ دوسرے اعمال میں بھی بہت زیادہ کوتاہ ہوگا۔ صدارتی خطاب پیش کرتے ہوئے حضرت مولانا محمد ادریس عقیل ملی قاسمی صاحب (شیخ الحدیث معہد ملت) نے طلبہ معہد کو بیش قیمت نصائح سے نوازا اور اس بات کی ہدایت دی کہ مقررین نے جو باتیں ارشاد فرمائی ہیں ان پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کریں، انہوں نے بتایا کہ درسگاہ میں مستعد ہوکر بیٹھیں، طلبہ درس میں تبرکاً نہ بیٹھیں، بلکہ درس کو محفوظ کرنے کی کوشش کریں، جو طالب علم لکھتا ہے وہ پوری توجہ بھی رکھتا ہے، جو نہیں لکھتا اس کی توجہ بھی منتشر رہتی ہے، ہم لوگ طالب علمی کے زمانے میں بڑے اہتمام سے لکھتے تھے، آج بھی ہماری کاپیاں زندگی کا قیمتی اثاثہ ہیں، ایسے ترغیبی پروگرام میں بھی ہمارا رویہ غفلت کا نہ ہو بلکہ ہم خوب غور سے باتوں کو سنین اورانہیں نوٹ کرنے کا اہتمام کریں۔ صدر اجلاس کی دعا پر مجلس اختتام کو پہونچی، اس اجلاس میں جامعہ کے تمام اساتذہ وطلبہ شریک تھے، نظامت کے فرائض حضرت مولانا زبیر احمد ملی صاحب (استاذ معہد ملت) نے انجام دیئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے