سیکولر رہنما ملائم سنگھ کی رحلت: سیاست کے ایک زریں عہد کا خاتمہ

کیا عجب شخص تھا گزراہے بڑی شان کے ساتھ۔ راستے چپ ہیں مگر نقشِ قدم بولتے ہیں۔۔۔ سماج وادی پارٹی کے  بانی سرپرست، اہم ستون تاریخ ساز رہنما، اتر پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ، ملک کے سابق وزیر دفاع ملائم سنگھ یادو کی رحلت سے اترپردیش کی ہی نہیں بلکہ پورے ملک کی فضا سوگوار ہوگئی ہے۔ زندگی کے سبھی شعبوں بالخصوص سیاسی حلقوں میں گہرے رنج و غم کا اظہار کیا جارہا ہے۔ وزیر اعظم، وزرائےاعلیٰ اور اور سابق وزرائے اعلیٰ سمت تمام  سیاسی رہنما ان کی رحلت کو ملک کا بڑا خسارہ تصور کر رہے ہیں۔واضح رہے کہ سماج وادی پارٹی کے سرپرست ملائم سنگھ یادو کی صحت تقریباً تین سال سے خراب چل رہی تھی۔ انہیں مہینے میں دو سے تین بار معائنے کے لیے اسپتال میں داخل کرانا پڑتاتھاگزشتہ اگست سے ان کی صحت انتہائی نازک بنی ہوئی تھی ملائم سنگھ یادو پروسٹیٹ سے متعلق پریشانی میں مبتلا تھے یہی وجہ ہے کہ وہ مسلسل میدانتا اسپتال کے ماہرین کی نگرانی میں رہتے تھے اس سے پہلے انہیں 15 جون کو میدانتا میں داخل کرایا گیا تھا، جہاں انہیں معمول کے چیک اپ کے بعد ڈسچارج کر دیا گیا تھا۔

اس کے بعد سے وہ مسلسل کسی نہ کسی پریشانی کا سامنا کر رہے تھے۔ ملائم سنگھ یادو کی سیاسی جدو جہد کی داستان اور کہانیاں بھی نہایت دلچسپ اور سبق آموز ہیں۔ انٹیگرل یونیورسٹی کے بانی و چانسلر پروفیسر سید وسیم اختر کہتے ہیں کہ نیتا جی کسی ایک مخصوص طبقے کے نہیں بلکہ عوامی رہنما تھے اور سماج کے ہر طبقے ہر مذہب اور ہر ذات کے انسان کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے تھے انہوں نے سماج واد کو انسانیت کی بہبود سے منسلک کرکے جو تاریخ رقم کی ہے وہ ہمیشہ زندہ و تابندہ رہے گی  پروفیسر سید وسیم اختر نے یہ بھی کہا کہ ملائم سنگھ کی رحلت ملک ریاست اور سماج کا تو بڑا نقصان ہے ہی ساتھ ہی انکا ذاتی خسارہ بھی ہے کیونکہ جناب ملائم سنگھ یادو نے تعلیمی ترقی اور فروغ کے لئے بھی غیر معمولی خدمات انجام دی ہیں۔

جب ملائم سنگھ یادو نے سماج وادی پارٹی بنائی تو کسی کو یقین نہیں تھا کہ علاقائی پارٹیاں بھی قومی پیمانوں پر اپنی شناخت بنا سکتی ہیں لیکن صرف چار برس میں ملائم سنگھ یادو نے اپنی باصلاحیت قیادت، ذہانت اور سیاسی اپروچ سے یہ ثابت کردیا کہ انہیں مثبت سیاست کرنے سے کوئی روک نہیں پائے گا۔ سماج وادی پارٹی نے نہ صرف بظاہر کانگریس اور بائیں محاذ کے درمیان توازن قائم کیا بلکہ سیکولر سیاسی جماعت کا تیسرا محاذ تیار کیا جہاں چھوٹی علاقائی پارٹیاں قومی سطح پر اپنی آواز بلند کر سکیں ملائم سنگھ یادو بی جے پی مخالف، کانگریس مخالف طاقتوں پر مشتمل تیسرے محاذ کے اہم معماروں میں سے ایک ہیں۔ ملائم سنگھ یادو نے علاقائی سیاسی جماعتوں کی اہمیت کو کئی بار مرکز کی حکومت سازی میں اہم کردار ادا کرکے علاقائی پارٹیوں کی اہمیت سے باور کرایا ہے۔ 1996 میں جب کانگریس کو شکست ہوئی تھی اور بی جے پی حکومت بنانے کے لئے درکار تعداد کو اکٹھا کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھی۔ نتیجہ حیران کن تھا۔ ایسے وقت میں ملائم سنگھ یادو نہ صرف 1996 اور 1998 کے درمیان ایچ ڈی دیوگوڑا اور آئی کے گجرال کی وزارت عظمیٰ کے تحت مرکز میں مسلسل دو حکومتیں بنوانے میں کامیاب رہے تھے۔  بلکہ انہوں نے مرکز میں ریاستی سطح کی جماعتوں کی موجودگی اور اہمیت میں اضافہ بھی کیا تھا۔ ملائم سنگھ یادو اپنے  رفیقوں اور اراکین کے ساتھ ساتھ سیاسی حریفوں کا بھی احترام کرتے تھے۔ قابل ذکر ہے کہ ملائم سنگھ یادو کے سیاسی گورو نتھو سنگھ مین پوری میں ایک ریسلنگ مقابلے کے دوران ملائم سے بہت متاثر ہوئے تھے اور پھر یہیں سے ملائم سنگھ یادو کے سیاسی کیریئر کا آغاز ہوا۔ ملائم سنگھ یادو اٹاوہ کی جسونت نگر اسمبلی سے پہلی بار الیکشن جیت کر اسمبلی پہنچے تھے۔

ملائم سنگھ یادو نے اس انتخاب میں ہندوستانی سیاست کے دگج لیڈر رام منوہر لوہیا کی یونائیٹڈ سوشلسٹ پارٹی کے ٹکٹ پر جیت حاصل کی تھی۔ دوسری جانب، رام منوہر لوہیا کا 1968 میں انتقال ہوگیا تھا اور اس کے بعد ملائم نے اس وقت کے بڑے کسان رہنما چرن سنگھ کی پارٹی ‘بھارتیہ کرانتی دل’ میں شمولیت اختیار کی۔ 1974 میں ملائم سنگھ ایک بار پھر بی کے ڈی کے ٹکٹ پر ایم ایل اے بنے۔ اس درمیان ایمرجنسی کے دوران ملائم سنگھ یادو بھی جیل گئے تھے۔ جسونت نگر سے تیسری بار ایم ایل اے منتخب ہونے پر ملائم سنگھ یادو رام نریش یادو کی حکومت میں کوآپریٹو وزیر بنے تھے۔ چرن سنگھ کی موت کے بعد ملائم سنگھ یادو کا سیاسی قد بڑھنے لگا اور وہ ایک قابل تقلید رہنما کی شکل میں لوگوں کی نگاہوں کا مرکز بن گئے۔ حالانکہ چرن سنگھ کے دعوے کے لئے ملائم سنگھ یادو اور چرن سنگھ کے بیٹے اور آر ایل ڈی رہنما اجیت سنگھ میں بالادستی کی لڑائی جاری تھی۔ 1990 میں جنتا دل میں پھوٹ پڑگئی اور ملائم سنگھ یادو نے 1992 میں سماج وادی پارٹی کی بنیاد رکھی۔ ملائم سنگھ یادو سیاسی اتحاد کے سبب 1989 میں پہلی بار اترپردیش کے وزیر اعلیٰ بنے تھے۔ 1991 میں ہوئے وسط مدتی انتخابات میں ملائم سنگھ یادو کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا، لیکن شکست و فتح کے مابین انہوں نے نہ کبھی اپنے اصولوں سے سمجھوتہ کیا اور نہ سماجوادی نظریات کو ترک کیا وہ ریاست اور ملک کی ترقی اور عوامی بہبود کے لئے بڑی سے بڑی قربانی دینے کو ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔

یہی سبب ہے کہ آج ان کی  رحلت اور ہمیشہ کے لئے رخصت پر ہر آنکھ نم ہے اور صرف اتر پردیش ہی نہیں بلکہ پورا ملک اس عظیم رہنما کی موت کاسوگ منا رہا ہے۔ موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس۔ یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے